Long live free and united Balochistan

Long live free and united Balochistan

Search This Blog

Translate


Balochi Song - ASLAM ASAD 2010


780 visningar 
    
balochw0rld | 28 juli, 2010 | 0 gillar, 0 gillar inte
WELLDONE THIS SONG NICE COMBACK FOR ASLAM ASAD

ایرانی دانشور کا حکومتی ایجنٹوں کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ کی ناکام کوشش کا اعتراف

واقعے کی تفصیلات کے وکی لیکس کے ذریعے انکشاف کے بعد



لندن ۔ رمضان الساعدی
ایران کے معروف صحافی، مصنف اور تجزیہ نگار ڈاکٹر علی نوری زادہ نے وکی لیکس اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ان کے امریکا میں قیام کے دوران ایرانی ایجنٹوں نے انہیں قتل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔وکی لیکس نے اپنی خفیہ رپورٹوں میں کہا ہے کہ ایرانی حکومت کے سخت ترین ناقد کے طور پر شہرت پانے والے علی زادہ تک ایرانی ایجنٹوں نے رسائی حاصل کی اور ان کے قتل کی ناکام کوشش کی۔ تفصیلات امریکی سیکیورٹی اداروں کے بھی علم میں تھیں۔ وکی لیکس نے یہ تفصیلات امریکی حکام ہی سے حاصل کی ہیں۔

العربیہ ٹی وی کے مطابق علی نوری زادہ نے خفیہ معلومات کے افشاء سے متعلق عالمی شہرت یافتہ ویب سائٹ" وکی لیکس" کی رپورٹوں پر پہلی مرتبہ اپنے قاتلانہ حملے کی تفصیلات پر اظہار خیال کیا ہے۔ علی زادہ نے بتایا کہ وہ امریکی ریاست لاس اینجلس میں قیام پذیر تھے کہ محمد رضا صادقی نیا نامی ایک ایرانی ایجنٹ نے ان سے رابطہ کیا۔ ایک سال تک وہ ان کی قربت حاصل کرتا اور بااعتماد دوست بننے کی کوشش میں رہا۔ اس ایک سال کے عرصے میں محمد رضاصادقی نے کئی بار ٹیلی فون پر اس سے رابطہ کیا اور ایران سے متعلق اس کے ذرائع ابلاغ میں شائع مضامین اور تجزیوں کی تعریف کی۔
محمد رضا صادقی سے ملاقات
علی نوری زادہ نے بتایا کہ لاس اینجلس میں قیام کے دوران محمد رضا صادقی نے انہیں اپنے گروہ میں بھرتی ہونے کی پیشکش کی تاہم میں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ "میں ایک صحافی ہوں اور کسی تنظیم یا گروہ کے ساتھ وابستگی کے بغیر آزادانہ کام کرنا چاہتا ہوں"۔

لاس اینجلس میں قیام کے دوران محمد رضا صادقی نے ان سے ملاقات بھی کی اور مزید اعتماد پیدا کرنے کے لیے اس نے بتایا کہ وہ سنی العقیدہ مسلمان اور کردوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اس کا خاندان بھی میری ایران سےمتعلق صحافتی خدمات سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ معترف بھی ہے

نوری زادہ نے مزید کہا کہ ان سے ملاقات کے بعد ایرانی ایجنٹ فورا امریکا سے تہران گیا جس سے انہیں اس پر شک گذرا۔ بعد ازاں ایک دوسری ملاقات میں جب اسے یہ استفسار کیاگیا کہ آیا اس کی سیاسی سرگرمیاں اس کے لیے نقصان دہ نہیں کہ وہ آزادی کے ساتھ ایران آتا جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ ایران میں وہ خو د کو اپنے اصل نام کے بجائے "شورش" کے نام سے متعارف کراتا ہے۔ وہ اسی نام کی شناخت سے تہران آتاجاتا ہے جس کےبارے میں ایرانی حکام آگاہ نہیں۔
کاروبار میں شراکت کی دعوت
العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی صحافی نے کہا کہ محمد رضا صادقی نے افغانستان میں موبائل فون کے کاروبار کے لیے ایک کمپنی بنائی جس میں شراکت کے لیے مجھے بھی پیشکش کی گئی۔ نوری زادہ کے بہ قول ان کے ساتھ بات چیت میں محمد رضا صادقی نے ایران میں اپنی گرفتاری کا بھی ایک واقعہ بیان کیا۔ رضاصادقی نے کہا کہ وہ ایران سے واپس امریکا آ رہا تھا کہ حکام نے اسے گرفتار کرلیاتاہم ایرانی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اسے رہائی دلوائی۔

محمد رضا صادقی نے بہ اصرار کہا کہ میں افغانستان میں اس کے موبائل فون کے کاروبار میں شراکت کروں یا خود نہیں کرسکتا تو اپنے بیٹے یا کسی دوسرے عزیز کو اس کام پر اس کا معاون بناٶں۔
ٹارگٹ کلنگ کی کوشش
علی نوری زادہ نے بتایا کہ" محمد رضا صادقی نے امریکا میں اس سے امریکی صدر براک اوباما کی پہلی مدت میں تقریب حلف برداری کے دوران بھی ٹیلیفون پر رابطہ کیا۔ اس دوران اس نے مجھے اپنے ساتھ چائے کی دعوت دی، میں نے ملاقات سے انکار کردیا۔ بعد ازاں امریکی پولیس نے بتایا کہ محمد رضا صادقی مجھے قتل کرنا چاہتا تھا اور چائے کی دعوت اسی کا حصہ تھی۔

محمد رضا صادقی کا کہناتھا کہ اسے برطانوی پولیس نے بھی بتایا ہے کہ محمد رضا صادقی کو ایران سے باہر بعض اہم شخصیات کے قتل کے الزام میں ایران میں حراست میں لیا گیا تھا تاہم پھر رہا کردیا گیا۔ برطانوی پولیس کے مطابق محمد رضا صادقی نیا ایرانی سراغ رساں اداروں کا خطرناک ایجنٹ ہے اور وہ جانتا ہے کہ مخالفین کو کس طرح اپنے جال میں پھنسایا جا سکتا ہے"۔

علی نوری زادہ نے بتایا کہ محمد رضا صادقی نے اپنی ایک سابقہ ملاقات میں اس کے دفتر کی تصاویر بھی لی اتاری تھیں۔ تاہم انہوں نے اس وقت اس کی پرواہ نہیں کی۔ بعد ازاں ایران میں ان کے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ آپ کی اور آپ کے دفتر کی بعض تصاویر ایران کے اعلیٰ سطح کے حکام کےمیزوں پر دیکھی گئی ہیں۔ اس پر مجھے شک گذرا کہ یا تو محمد رضا صادقی کو گرفتار کیاگیا ہے کہ اس کے قبضے سے میرے دفتر کی تصاویر برآٓمد ہوئی ہیں یا وہ ایران کا ایجنٹ ہے اور اس نے میری تصاویر ان تک پہنچائی ہیں۔

جنداللہ کے ہاں یرغمالی حسین شیرانی کا اعترافی بیان

تہران کے جوہری پروگرام کا مقصد اسلحہ کی تیاری ہے: ایٹمی سائنسدان

دبئی ۔ العربیہ
ایران کی حکومت مخالف مسلح سنی تنظیم جند اللہ کے ہاتھوں یرغمال بنائےایٹمی سائنسدان امیر حسین شیرانی نے تہران کے خفیہ نیوکلئیر پروگرام سے متعلق چشم کشا انکشاف کئے ہیں۔ امیر حسین شیرانی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایران کے وسطی علاقے اصفہان میں یورنیم افزودگی کےایٹمی ری ایکٹر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

جند اللہ نے 08 اکتوبر 2010ء کو ایک بیان میں امیر حسین شیرانی کے اصفہان سے اغوا کا دعوی کیا تھا۔ اس کے بعد تنظیم نے یرغمالی کوشورش زدہ علاقےبلوچستان منتقل کر دیا۔ جند اللہ ایرانی حکومت پر ملک میں اہل سنت کے خلاف نسلی امتیاز برتنے کا الزام عاید کرتی چلی آ رہی ہے۔

العربیہ کو ملنے والے امیر حسین شیرانی نے اپنے ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان اعتراف کیا ہے وہ تین سال تک مشرقی اصفہان میں ایک خفیہ ایٹمی مرکز میں کام کرتے رہے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ انہیں ایٹمی پلانٹ میں ملازمت احمد سلطانی نامی اپنے ایک قریبی عزیز کے توسط سے ملی، جو ری ایکٹر میں اعلی عہدے پر فائز ہیں۔

میرحسین شیرانی مزید اعتراف کرتے ہیں کہ"تین سال کے عرصے میں کام کے دوران ان کی "پریکٹس" یورینیم کی اس انداز میں افزودگی تھی تاکہ اس سے جوہری ہتھیار بنائے جاسکیں۔ بہ قول شیرانی کے اس سارے عرصے میں اس کی ذاتی سرگرمیوں اور کام پر سیکیورٹی کے اداروں کی کوئی نظر نہیں رہی اور وہ آزادی کے ساتھ اپنا کام کرتا رہا ہے۔

مغوی ایرانی اہلکار کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل سے قرابت داری کی وجہ سے وہ تین سال کے عرصے میں کئی جوہری سائنسدانوں اور ایٹمی پروگرام سےوابستہ اہلکاروں کے خفیہ اجلاس بھی منعقد ہوتے رہے ہیں جن وہ بھی شریک رہا۔ ان اجلاسوں میں منتظمین اس بات پرزور دیتے رہے کہ"ان کا اصل ہدف ایٹم بم تیار کرنا ہے کیونکہ ان کے دشمن ممالک امریکا اور اسرائیل یہ صلاحیت حاصل کرچکے ہیں"۔

اپنے ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان میں میرحسین شیرانی نے کئی مرتبہ ہمسایہ ملک پاکستان کا بھی نام لیتے رہے ۔ شیرانی کے بہ قول ایرانی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ "اگر پاکستان جوہری بم تیار کرسکتا ہے تو کیا ایران کا مقام پاکستان سے کم ہے۔ پاکستان کے بعد ایران کو بھی اس میدان میں کسی ملک سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔"

شیرانی نے اصفہان کی جوہری تنصیبات اور یورینیم افزودگی سینٹر میں کام کرنے والے بعض اہم سائنسدانوں نے نام بھی بتائے ہیں،جن میں ان کے ایک قریبی عزیزانجینئر احمد سلطانی، ایٹمی تنصیب کے نگران اعلیٰ اقازادہ ، انجینئر رضا بسندی، محمد توکلی، انجینئر قنبریان، انجینئر قاسمی اور انجینئر عادلی کے نام شامل ہیں۔

حسین شیرانی نے بتایا ہے کہ اصفہان یورینیم افزودگی مرکز میں تین شفٹوں میں چوبیس گھنٹے کام جاری ہے اور ایک شفٹ میں کم ازکم 50 افراد کام کرتے ہیں۔ یہ جوہری تنصیب اصفہان کے مرکز سے جنوب مشرق میں 15 کلو میٹر دور "بران" قصبے میں واقع ہے۔ ایرانی انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدیدار، مرشد اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر محمود احمدی نژاد کے سیکرٹری سطح کے عہدیدار مسلسل اس جگہ کے دورے کرتے ہیں۔

علیرضا نوری زاده طرح ترور وی توسط یک مامورایرانی را فاش کرد

لندن – رمضان ساعدی
سایت جنجالی ویکیلیکس در آخرین افشاگری خود از طرح ترورعلیرضا نوری زاده روزنامه نگار ایرانی مقیم لندن پرده برداشته است.

ویکیلیکس سندی منتشرکرد که در آن تلاش یک مامورایرانی برای ترور این فعال سیاسی مخالف جمهوری اسلامی در یکی از سفرهای وی به آمریکا فاش شده است.

علیرضا نوری زاده روز سه شنبه 30-11-2010 برای اولین بار در گفتگو با العربیه ماجرای ترور نافرجام و چگونگی لو رفتن این طرح را شرح داد.

او گفت :" یک مامور اطلاعاتی ایران به نام محمد رضا صادقی نیا طی بیش از یک سال چندین بار از محل اقامت خود در آمریکا با من تماس می گرفت و از فعالیت های روزنامه نگاری و مصاحبه های من اظهار قدردانی می کرد و سرانجام در یکی از سفرهای خود با او در لس آنجلس ملاقات کردم."

مدیر مرکز مطالعات ایران و عرب در لندن گفت:" او در این دیدار خود را از اهل سنت و کُرد معرف نمود و به من گفت اعضای خانواده اش مصاحبه های من را دنبال می کنند و احترام زیادی برای من قائل هستند."

او افزود ": صادقی نیا بعدها به ایران رفت و من از وی پرسیدم آیا احساس خطر نمی کند اما او درجواب گفت که با نام مستعار"شورش" فعالیت می کند به همین دلیل اطلاعات او را شناسایی نکرده است."

نوری زاده گفت : " او ادعا کرد در آخرین سفرش توسط نیروهای امنیتی ایران دستگیر شد اما با وساطت یکی از اقوام خود که به نظام نزدیک است توانسته است از زندان آزاد شود."
ملاقات در لندن
روزنامه نگار مخالف جمهوری اسلامی در مورد دیدار با صادقی نیا در لندن اظهارداشت :" یک بار او را در دفترم در لندن ملاقات کردم ، وی در این دیدار به من پیشنهاد داد یک کار تجاری مشترک انجام دهیم اما من نپذیرفتم . سپس از تمام جاهای دفترعکس گرفت وقتی از او علت را پرسیدم به من گفت :" مردم باید بدانند نوری زاده کیست وچگونه برای رسیدن به دموکراسی و آزادی در ایران تلاش می کند."

مدیرمرکز مطالعات ایران و عرب افزود :" کمتر از یک هفته بعد یکی از دوستان از ایران تماس گرفت و از اینکه عکسهای مرا بر روی میز یکی ازمسؤلان امنيتی دیده است اظهار تعجب کرد، از اینجا بود که احساس کردم صادقی نیا یا مامور است و یا اینکه در ایران بازداشت شده است."
طرح ترور در واشنگتن
نوری زاده گفت : " در سال 2009 هنگام حضور در مراسم ادای سوگند اوباما رئیس جمهور آمریکا صادقی نیا بار دیگر با من تماس گرفت و این بار مرا برای یک نوشیدنی دعوت کرد اما من نپذیرفتم و بعد از آن از پلیس امریکا فهمیدم که وی همان موقع قصد داشت مرا مسموم کند."

او افزود: " پلیس بریطانیا سپس به من اطلاع داد که صادقی نیا به اتهام تلاش برای ترور تعدادی از مخالفان جمهوری اسلامی از جمله من ، در آمریکا دستگیر شده است."

آقای نوری زاده تاکید کرد پس از بازداشت صادقی نیا جمهوری اسلامی برای آزادی وی بسیارتلاش کرد ، او از ماموران مهم ، آموزش دیده و حرفه ای بود و تجربه کافی برای فریب دادن دیگران داشت."

روزنامه نگار مخالف گفت: " در طول این مدت برای جلوگیری از نگرانی خانواده تلاش کردم موضوع را رسانه ای نکنم اما این بار ویکیلیکس مساله را فاش کرد."

مدیر مرکز مطالعات ایران و عرب افزود : " پلیس بریتانیا پس از آن برای حمایت من و اعضای خانواده ام تدابیر ویژه ای بکار گرفت و به من اطلاع داد یک نامه رسمی برای جمهوری اسلامی ایران فرستاده و به آنها هشدار داده است دست به عملیات تروریستی نزند."

Alarabiya.net

فرج سرکوهی -- ابهام در تعیین مصادیق شکنجه در ایران


آقای تاجزاده پس از انتخابات سال گذشته ریاست جمهوری ایران بازداشت شد

مصطفی تاج زاده، سرپرست وزارت کشور و مشاور رئیس جمهوری در دوران ریاست جمهوری محمد خاتمی که اکنون زندانی است، هفته گذشته از غلامحسین محسنی اژه ای، دادستان و سخنگوی قوه قضائیه ایران خواست "مصادیق شکنجه" را از نظر خود و قانون اعلام کند.

پاسخ "شرعی" و "حقوقی" به این پرسش برای آقای محسنی اژه ای که در فقه به اجتهاد رسیده و با مدرک دانشگاهی "کارشناسی ارشد حقوق بین الملل" سمت هائی چون قضاوت، ریاست دادگاه ویژه روحانیت و وزارت اطلاعات را بر عهده داشته است، در نگاه اول دشوار نیست چرا که فقهای شیعه "اکراه" را از جمله در "اعتراف و اقرار" مردود شمرده و قوانین ایران نیز برخی مصادیق شکنجه جسمی را به روشنی تعیین و ممنوع کرده اند.

اما تعریف بدون تناقض و همگن شکنجه روانی و جسمی و به دست دادن معیارهای روشن برای تعیین مصادیق آن در ایران چندان که در نگاه اول می نماید، آسان نیست.

ابهام نظری و تناقض در قوانین

برخی تفسیرهای نظری در ایران اصل "امر به معروف" را به ارشاد و هدایت اجباری "گمراهان" به شناخت حقیقت تعمیم داده و ترکیبی از خشونت های جسمی و روحی با استدلال های نظری را برای تحقق این هدف، با توجیه "شر جزئی در خدمت خیر کلی" مجاز می دانند.

توجیهاتی چون ترجیح منافع جمعی، خیر عمومی و مصالح و امنیت ملی بر منافع و حقوق فردی، ارجحیت حقوق جمع بر حقوق فرد، نجات جان "گروهی" از انسان ها با گرفتن اطلاعات از "فرد"ی که به مثل، از محل بمبی با خبر است که قرار است در مدرسه یا محلی پرجمعیت منفجر شود، نیز مطرح شده و تعریف بدون تناقض شکنجه را بر برخی اذهان دشوار می کنند.

مبانی اصلی قوانین در یک کشور باید از همگنی برخوردار و از تناقض بری باشند، اما برخی شیوه های دادرسی در ایران با ممنوعیت شکنجه در قانون اساسی تناقض داشته و مرز شیوه های مجاز قانونی را با شکنجه مخدوش می کنند.

در این گروه از قوانین مواردی که در عرف و قوانین بین المللی شکنجه تلقی می شوند، "مجازات" قانونی تلقی شده است که از این جمله می توان به "تعزیر" به هنگام بازجوئی اشاره کرد.

شلاق زدن زندانی به قصد کسب اطلاعات یا اعتراف و اقرار در قوانین بین المللی و قوانین ایران شکنجه تلقی و ممنوع شده است، اما دادرسی در ایران شلاق زدن متهمی را که از نظر بازجو حقیقت را در بازجوئی پنهان می کند، "مجازات" لقب داده و به بازجو حق می دهد تا با حکم قاضی متهم را شلاق بزند.

خشونت های دیگری چون سنگسار و قطع اعضای بدن نیز، که در عرف بین المللی شکنجه تلقی می شوند، در قوانین ایران "مجازات" تلقی شده اند.

اما تناقض در قوانین ایران تنها عامل ابهام در تعریف شکنجه و تعیین مصادیق آن نیست و عوامل دیگری نیز در این روند موثرند.

شیوه ها و مکانیزم های شکنجه حاصل تخیل و ابداع متخصصان این عرصه است و تخیل و ابداع بشری را مرزی عبورناپذیر محدود نمی کند.

شیوه ها، موارد، مصادیق و مکانیزم های شکنجه های جسمی و روحی در ایران و جهان ثابت و یکسان نمانده، همپا و متناسب با پیشرفت های علمی، تکنیکی و دستاوردهای نو در روان شناسی متحول می شوند.

در نظام های مکتبی، رسالت نگهبانی از ذهنیت شهروندان و فرهنگ جامعه و وظیفه هدایت و ارشاد شهروندان نیز به حکومت محول می شود. این گونه حکومت ها در تحقق این اهداف همه امکانات و از جمله ترکیبی از شکنجه های جسمی و روحی و استدلال های نظری در اتاق بازجوئی را به کار می گیرند تا اطلاعات لازم را برای "حفظ امنیت جامعه و امنیت ملی" از متهم کسب، هویت "نامطلوب" او را خرد و هویتی تازه اما "مطلوب" را جایگزین آن کنند.

منابع برای تعریف شکنجه

اما به رغم این تناقضات می توان با استناد به کنوانسیون های بین المللی، قانون اساسی جمهوری اسلامی و قانون منع شکنجه در ایران، اگر نه همه، که اغلب مصادیق و موارد شکنجه جسمی را تعیین کرد.

"کنوانسیون جهانی حمایت از قربانیان شکنجه"، که در سال ۱۹۸۷ تصویب شد، "هر عمل عمدی که بر اثر آن درد یا رنج شدید جسمی یا روحی علیه فردی به منظور کسب اطلاعات یا گرفتن اقرار از او و یا شخص سوم تحمیل می شود" را شکنجه تلقی و ممنوع می کند.

فقهای شیعه "اکراه" و "مجبور کردن کسی به انجام کاری یا گفتن سخنی برخلاف میل او" را مجاز نمی دانند.

دولت ایران پیش از انقلاب اعلامیه جهانی حقوق بشر را در سال ۱۹۴۸، میثاق بین المللی حقوق مدنی و سیاسی را در سال ۱۹۶۶ و میثاق بین المللی حقوق اقتصادی، اجتماعی و فرهنگی را در سال ۱۹۶۶ امضا کرد و جمهوری اسلامی نیز، به رغم مخالفت نظری با مبانی فلسفی این اسناد، امضای دولت ایران را پس نگرفته است.

‌قوانین ایران نیز در باره شکنجه ساکت نیستند. اصل ۳۸ قانون اساسی جمهوری اسلامی "هرگونه شکنجه" به قصد "گرفتن اقرار و یا کسب اطلاع" را ممنوع می کند هر چند در باره شکنجه جسمی و روانی برای خردکردن شخصیت و هویت زندانی و جاانداختن هویتی دیگر، که در ایران به "تواب سازی" مشهور شده است، ساکت است.

بر اساس ماده ۵۷۸ "قانون مجازات اسلامی" مصوب ۱۳۷۵ و ماده ۵۸ "قانون تعزیرات" مصوب ۱۳۶۲ "هر یک از مستخدمان و مأموران قضایی یا غیرنظامی دولتی" که "متهمی را مجبور به اقرار کند، او را تحت اذیت و آزار بدنی قرار دهند" به "قصاص یا پرداخت دیه" یا "به حبس از ۶ ماه تا ۳ سال محکوم" می‌شوند.

در قانون "منع شکنجه"، که در ۱۸ اردیبهشت ۱۳۸۱ تصویب شد، دست کم ۱۷ مورد از "مصادیق شکنجه" مشخص و ممنوع شده است.

بر اساس این قانون "هرگونه اذیت یا آزار بدنی"، "نگهداری زندانی به صورت انفرادی یا نگهداری بیش از یک نفر در سلول انفرادی"، "چشم‌بند زدن به زندانی در محیط زندان و یا بازداشتگاه"، "بازجویی در شب"، "بی ‌خوابی دادن به زندانی"، "انجام اقداماتی که عرفاً اعمال فـشـار روانـی بـر زنـدانـی تـلقی می‌شود"، "فحاشی، به کار بردن کلمات رکیک، توهین و یا تحقیر زندانی هنگام بازجویی"، "داروهای روان گردان"، "محروم کردن بیماران زندانی از دسترسی به خدمات ضروری"، "نگهداری زندانی در محل‌هایی با سر و صدای آزاردهنده"، "گرسنگی و یا تشنگی دادن به زندانی و محروم کردن زندانی از استفاده از امکانات مناسب بهداشتی"، "طبقه‌بندی نشدن زندانیان و نگهداری جوانان یا زندانیان عادی در کنار زندانیان خطرناک"، "جلوگیری از هواخوری روزانه زندانی"، "ممانعت از دسترسی به نشریات و کتب مجاز کشور"، "ممانعت از ملاقات هفتگی یا تماس زندانی با خانواده‌"، ‌"فشار روانی به زندانی از طریق اعمال فشار به اعضای خانواده"، "ممانعت از ملاقات متهم با وکیل" و "ممانعت از انجام فرایض مذهبی" "شکنجه" تلقی و ممنوع و برای متخلفان مجازات هائی تعیین شده است.

شکنجه هائی روانی با مصادیق مبهم

همه حکومت هائی که به شکنجه کردن، متهم می شوند، این اتهام را رد و قوانینی برای منع شکنجه تصویب کرده اند، اما "ادبیات قربانیان شکنجه"، از خاطرات تا رمان و داستان و شعر، بخش مهمی از ادبیات جهان است و شباهت شیوه های شکنجه در این متون چندان است که امکان مستندسازی را فراهم می کند.

بر مبنای این ادبیات، شکنجه پیش از بازداشت قربانی آغاز می شود و "تعقیب محسوس" از کاراترین شیوه های این مرحله است. در "تعقیب محسوس" قربانی را چنان تعقیب می کنند که او تحت تعقیب بودن خود را دریابد.

قربانی آگاه به تحت تعقیب بودن خود می داند که به زودی بازداشت خواهد شد. امنیت روانی او سلب، زندگی او مختل و قربانی به بازجوی خود بدل شده و مدام از خود می پرسد که کدام عمل یا سخن او به بازداشت او منجر شده است.

زندانی که در مرحله تعقیب محسوس به تزلزل روانی دچار شده در مرحله بازداشت با سلول انفرادی، بی خوابی، تهدید، شلاق و دیگر شکنجه های جسمی و روحی تضعیف می شود.

در این مرحله بازجو نماینده قدرتی است که همه چیز را در باره زندانی می داند، بر عقاید، ضعف ها و قدرت ها و حساسیت ها، روابط عاطفی، جنسی، سیاسی و اجتماعی او آگاه است و از تناقضات فکری، شخصیتی و سیاسی قربانی برای خرد کردن او بهره می گیرد.

"تحقیر روشمند" زندانی در این مرحله از کاراترین شیوه های شکستن اعتماد به نفس او است. بازجو از آگاهی گسترده خود در باره زندانی برای تحقیر او بهره می گیرد و می کوشد تا زندانی را به تحقیر خود وادار کند.

زندانی در این مرحله فردی بی پناه، رها شده و ضعیف است که در برابر قدرتی منسجم، همه دان و در برابر بازجوئی قرار گرفته است که اختیار مرگ و زندگی، خواب و بی خوابی و درد و رنج او را در دست دارد.

مصادیق شکنجه های جسمی را در مرحله بازجوئی و تغییر هویت می توان با تعابیری چون "خشونت" و "درد" یا "اکراه" مشخص کرد، اما تعیین "مصادیق" شکنجه های روانی چندان آسان نیست، چرا که این مقوله نه با معیارهای عینی، مشخص و بیرونی که با تنوع روان شناسی فردی پیوند خورده است.

بر اساس قانون منع شکنجه، "هرگونه اذیت یا آزار بدنی"، "نگهداری زندانی به صورت انفرادی یا نگهداری بیش از یک نفر در سلول انفرادی"، "چشم‌بند زدن به زندانی در محیط زندان و یا بازداشتگاه"، "بازجویی در شب"، "بی ‌خوابی دادن به زندانی"، "انجام اقداماتی که عرفاً اعمال فـشـار روانـی بـر زنـدانـی تـلقی می‌شود"، "فحاشی، به کار بردن کلمات رکیک، توهین و یا تحقیر زندانی هنگام بازجویی"، "داروهای روان گردان"، "محروم کردن بیماران زندانی از دسترسی به خدمات ضروری"، "نگهداری زندانی در محل‌هایی با سر و صدای آزاردهنده"، "گرسنگی و یا تشنگی دادن به زندانی و محروم کردن زندانی از استفاده از امکانات مناسب بهداشتی"، "طبقه‌بندی نشدن زندانیان و نگهداری جوانان یا زندانیان عادی در کنار زندانیان خطرناک"، "جلوگیری از هواخوری روزانه زندانی"، "ممانعت از دسترسی به نشریات و کتب مجاز کشور"، "ممانعت از ملاقات هفتگی یا تماس زندانی با خانواده‌"، ‌"فشار روانی به زندانی از طریق اعمال فشار به اعضای خانواده"، "ممانعت از ملاقات متهم با وکیل" و "ممانعت از انجام فرایض مذهبی" "شکنجه" تلقی و ممنوع و برای متخلفان مجازات هائی تعیین شده است.

مصادیق شکنجه های جسمی را در مرحله بازجوئی و تغییر هویت می توان با تعابیری چون "خشونت" و "درد" یا "اکراه" مشخص کرد، اما تعیین "مصادیق" شکنجه های روانی چندان آسان نیست، چرا که این مقوله نه با معیارهای عینی، مشخص و بیرونی که با تنوع روان شناسی فردی پیوند خورده است.

http://www.bbc.co.uk/persian/iran/2010/11/101130_fs_torture.shtml