واقعے کی تفصیلات کے وکی لیکس کے ذریعے انکشاف کے بعد
لندن ۔ رمضان الساعدی
ایران کے معروف صحافی، مصنف اور تجزیہ نگار ڈاکٹر علی نوری زادہ نے وکی لیکس اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ان کے امریکا میں قیام کے دوران ایرانی ایجنٹوں نے انہیں قتل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔وکی لیکس نے اپنی خفیہ رپورٹوں میں کہا ہے کہ ایرانی حکومت کے سخت ترین ناقد کے طور پر شہرت پانے والے علی زادہ تک ایرانی ایجنٹوں نے رسائی حاصل کی اور ان کے قتل کی ناکام کوشش کی۔ تفصیلات امریکی سیکیورٹی اداروں کے بھی علم میں تھیں۔ وکی لیکس نے یہ تفصیلات امریکی حکام ہی سے حاصل کی ہیں۔
العربیہ ٹی وی کے مطابق علی نوری زادہ نے خفیہ معلومات کے افشاء سے متعلق عالمی شہرت یافتہ ویب سائٹ" وکی لیکس" کی رپورٹوں پر پہلی مرتبہ اپنے قاتلانہ حملے کی تفصیلات پر اظہار خیال کیا ہے۔ علی زادہ نے بتایا کہ وہ امریکی ریاست لاس اینجلس میں قیام پذیر تھے کہ محمد رضا صادقی نیا نامی ایک ایرانی ایجنٹ نے ان سے رابطہ کیا۔ ایک سال تک وہ ان کی قربت حاصل کرتا اور بااعتماد دوست بننے کی کوشش میں رہا۔ اس ایک سال کے عرصے میں محمد رضاصادقی نے کئی بار ٹیلی فون پر اس سے رابطہ کیا اور ایران سے متعلق اس کے ذرائع ابلاغ میں شائع مضامین اور تجزیوں کی تعریف کی۔
محمد رضا صادقی سے ملاقات
علی نوری زادہ نے بتایا کہ لاس اینجلس میں قیام کے دوران محمد رضا صادقی نے انہیں اپنے گروہ میں بھرتی ہونے کی پیشکش کی تاہم میں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ "میں ایک صحافی ہوں اور کسی تنظیم یا گروہ کے ساتھ وابستگی کے بغیر آزادانہ کام کرنا چاہتا ہوں"۔
لاس اینجلس میں قیام کے دوران محمد رضا صادقی نے ان سے ملاقات بھی کی اور مزید اعتماد پیدا کرنے کے لیے اس نے بتایا کہ وہ سنی العقیدہ مسلمان اور کردوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اس کا خاندان بھی میری ایران سےمتعلق صحافتی خدمات سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ معترف بھی ہے
نوری زادہ نے مزید کہا کہ ان سے ملاقات کے بعد ایرانی ایجنٹ فورا امریکا سے تہران گیا جس سے انہیں اس پر شک گذرا۔ بعد ازاں ایک دوسری ملاقات میں جب اسے یہ استفسار کیاگیا کہ آیا اس کی سیاسی سرگرمیاں اس کے لیے نقصان دہ نہیں کہ وہ آزادی کے ساتھ ایران آتا جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ ایران میں وہ خو د کو اپنے اصل نام کے بجائے "شورش" کے نام سے متعارف کراتا ہے۔ وہ اسی نام کی شناخت سے تہران آتاجاتا ہے جس کےبارے میں ایرانی حکام آگاہ نہیں۔
کاروبار میں شراکت کی دعوت
العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی صحافی نے کہا کہ محمد رضا صادقی نے افغانستان میں موبائل فون کے کاروبار کے لیے ایک کمپنی بنائی جس میں شراکت کے لیے مجھے بھی پیشکش کی گئی۔ نوری زادہ کے بہ قول ان کے ساتھ بات چیت میں محمد رضا صادقی نے ایران میں اپنی گرفتاری کا بھی ایک واقعہ بیان کیا۔ رضاصادقی نے کہا کہ وہ ایران سے واپس امریکا آ رہا تھا کہ حکام نے اسے گرفتار کرلیاتاہم ایرانی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اسے رہائی دلوائی۔
محمد رضا صادقی نے بہ اصرار کہا کہ میں افغانستان میں اس کے موبائل فون کے کاروبار میں شراکت کروں یا خود نہیں کرسکتا تو اپنے بیٹے یا کسی دوسرے عزیز کو اس کام پر اس کا معاون بناٶں۔
ٹارگٹ کلنگ کی کوشش
علی نوری زادہ نے بتایا کہ" محمد رضا صادقی نے امریکا میں اس سے امریکی صدر براک اوباما کی پہلی مدت میں تقریب حلف برداری کے دوران بھی ٹیلیفون پر رابطہ کیا۔ اس دوران اس نے مجھے اپنے ساتھ چائے کی دعوت دی، میں نے ملاقات سے انکار کردیا۔ بعد ازاں امریکی پولیس نے بتایا کہ محمد رضا صادقی مجھے قتل کرنا چاہتا تھا اور چائے کی دعوت اسی کا حصہ تھی۔
محمد رضا صادقی کا کہناتھا کہ اسے برطانوی پولیس نے بھی بتایا ہے کہ محمد رضا صادقی کو ایران سے باہر بعض اہم شخصیات کے قتل کے الزام میں ایران میں حراست میں لیا گیا تھا تاہم پھر رہا کردیا گیا۔ برطانوی پولیس کے مطابق محمد رضا صادقی نیا ایرانی سراغ رساں اداروں کا خطرناک ایجنٹ ہے اور وہ جانتا ہے کہ مخالفین کو کس طرح اپنے جال میں پھنسایا جا سکتا ہے"۔
علی نوری زادہ نے بتایا کہ محمد رضا صادقی نے اپنی ایک سابقہ ملاقات میں اس کے دفتر کی تصاویر بھی لی اتاری تھیں۔ تاہم انہوں نے اس وقت اس کی پرواہ نہیں کی۔ بعد ازاں ایران میں ان کے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ آپ کی اور آپ کے دفتر کی بعض تصاویر ایران کے اعلیٰ سطح کے حکام کےمیزوں پر دیکھی گئی ہیں۔ اس پر مجھے شک گذرا کہ یا تو محمد رضا صادقی کو گرفتار کیاگیا ہے کہ اس کے قبضے سے میرے دفتر کی تصاویر برآٓمد ہوئی ہیں یا وہ ایران کا ایجنٹ ہے اور اس نے میری تصاویر ان تک پہنچائی ہیں۔
No comments:
Post a Comment