Long live free and united Balochistan

Long live free and united Balochistan

Search This Blog

Translate

جنداللہ کے ہاں یرغمالی حسین شیرانی کا اعترافی بیان

تہران کے جوہری پروگرام کا مقصد اسلحہ کی تیاری ہے: ایٹمی سائنسدان

دبئی ۔ العربیہ
ایران کی حکومت مخالف مسلح سنی تنظیم جند اللہ کے ہاتھوں یرغمال بنائےایٹمی سائنسدان امیر حسین شیرانی نے تہران کے خفیہ نیوکلئیر پروگرام سے متعلق چشم کشا انکشاف کئے ہیں۔ امیر حسین شیرانی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایران کے وسطی علاقے اصفہان میں یورنیم افزودگی کےایٹمی ری ایکٹر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

جند اللہ نے 08 اکتوبر 2010ء کو ایک بیان میں امیر حسین شیرانی کے اصفہان سے اغوا کا دعوی کیا تھا۔ اس کے بعد تنظیم نے یرغمالی کوشورش زدہ علاقےبلوچستان منتقل کر دیا۔ جند اللہ ایرانی حکومت پر ملک میں اہل سنت کے خلاف نسلی امتیاز برتنے کا الزام عاید کرتی چلی آ رہی ہے۔

العربیہ کو ملنے والے امیر حسین شیرانی نے اپنے ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان اعتراف کیا ہے وہ تین سال تک مشرقی اصفہان میں ایک خفیہ ایٹمی مرکز میں کام کرتے رہے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ انہیں ایٹمی پلانٹ میں ملازمت احمد سلطانی نامی اپنے ایک قریبی عزیز کے توسط سے ملی، جو ری ایکٹر میں اعلی عہدے پر فائز ہیں۔

میرحسین شیرانی مزید اعتراف کرتے ہیں کہ"تین سال کے عرصے میں کام کے دوران ان کی "پریکٹس" یورینیم کی اس انداز میں افزودگی تھی تاکہ اس سے جوہری ہتھیار بنائے جاسکیں۔ بہ قول شیرانی کے اس سارے عرصے میں اس کی ذاتی سرگرمیوں اور کام پر سیکیورٹی کے اداروں کی کوئی نظر نہیں رہی اور وہ آزادی کے ساتھ اپنا کام کرتا رہا ہے۔

مغوی ایرانی اہلکار کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل سے قرابت داری کی وجہ سے وہ تین سال کے عرصے میں کئی جوہری سائنسدانوں اور ایٹمی پروگرام سےوابستہ اہلکاروں کے خفیہ اجلاس بھی منعقد ہوتے رہے ہیں جن وہ بھی شریک رہا۔ ان اجلاسوں میں منتظمین اس بات پرزور دیتے رہے کہ"ان کا اصل ہدف ایٹم بم تیار کرنا ہے کیونکہ ان کے دشمن ممالک امریکا اور اسرائیل یہ صلاحیت حاصل کرچکے ہیں"۔

اپنے ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان میں میرحسین شیرانی نے کئی مرتبہ ہمسایہ ملک پاکستان کا بھی نام لیتے رہے ۔ شیرانی کے بہ قول ایرانی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ "اگر پاکستان جوہری بم تیار کرسکتا ہے تو کیا ایران کا مقام پاکستان سے کم ہے۔ پاکستان کے بعد ایران کو بھی اس میدان میں کسی ملک سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔"

شیرانی نے اصفہان کی جوہری تنصیبات اور یورینیم افزودگی سینٹر میں کام کرنے والے بعض اہم سائنسدانوں نے نام بھی بتائے ہیں،جن میں ان کے ایک قریبی عزیزانجینئر احمد سلطانی، ایٹمی تنصیب کے نگران اعلیٰ اقازادہ ، انجینئر رضا بسندی، محمد توکلی، انجینئر قنبریان، انجینئر قاسمی اور انجینئر عادلی کے نام شامل ہیں۔

حسین شیرانی نے بتایا ہے کہ اصفہان یورینیم افزودگی مرکز میں تین شفٹوں میں چوبیس گھنٹے کام جاری ہے اور ایک شفٹ میں کم ازکم 50 افراد کام کرتے ہیں۔ یہ جوہری تنصیب اصفہان کے مرکز سے جنوب مشرق میں 15 کلو میٹر دور "بران" قصبے میں واقع ہے۔ ایرانی انٹیلی جنس کے اعلیٰ عہدیدار، مرشد اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر محمود احمدی نژاد کے سیکرٹری سطح کے عہدیدار مسلسل اس جگہ کے دورے کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment