Long live free and united Balochistan

Long live free and united Balochistan

Search This Blog

Translate

دانشگاه های دولتی ایران دانشجوی پولی می گیرند

با تصویب مجلس ایران دانشگاه ها و موسسات آموزش عالی و تحقیقاتی مجاز شده اند که با گرفتن پول دانشجو بپذیرند.

در ماده ۲۴ لایحه برنامه پنجم توسعه که مجلس مشغول بررسی کردن آن است، آمده: "دانشگاه ها و موسسات آموزش عالی و تحقیقاتی مجازند از ظرفیت مازاد بر سهمیه آموزش رایگان خود و یا ظرفیت های جدیدی که ایجاد می کنند بر اساس قیمت تمام شده و یا توافقی با بخش غیر دولتی دانشجو بذیرند."

پیش از تصویب این بند از لایحه پنجم، پنج تن از نمایندگان مجلس به آن اعتراض کردند و ایجاد پذیرش دانشجوی شهریه ای در دانشگاه ها و موسسات آموزش عالی را خلاف قانون اساسی و تبعیض آمیز دانستند.

به گزارش خبرگزاری دولتی ایران (ایرنا) مهدی کوچک زاده، نماینده تهران گفت: "بر اساس این مصوبه، مجلس به دانشگاه ها اجازه می دهد که با استفاده از امکانات دولتی از دانشجویان پول بگیرند که این به ضرر عده ای است که دانشگاه غیر دولتی تاسیس کرده اند."

آقای کوچک زاده هم چنین این مصوبه را به "زیان دانشجویانی دانست که با قبولی در کنکور وارد دانشگاه شده اند" زیرا در دراز مدت "به ناگزیر دانشجویان پولی مورد توجه بیشتری قرار می گیرند."

محمد حسن ابوترابی، نائب رئیس مجلس ایران در پاسخ به کوچک زاده گفت: "قصد ما جذب دانشجو با بالاترین ظرفیت و جلوگیری از خروج دانشجویان از کشور است، هر چند که باید توجه کرد که بخش غیر دولتی آسیب نبیند."

این در حالی است که همزمان نمایندگان مجلس ایران طرحی را تصویب کردند که به دانشگاه های ایران اجازه می دهد که به منظور ترویج ارزش های اسلامی بدون دریافت شهریه یا با تخفیف دانشجوی خارجی بگیرند.

نماینده مجلس: معترضان صنفی دانشگاه ها بیمارند

تصویب بند دیگری از این لایحه که در آن واگذاری ۲۰ درصدی سالانه خدمات رفاهی دانشجویان دانشگاه های دولتی به بخش خصوصی پیش بینی شده بود با اعتراض نمایندگان روبرو شد.

حسن کامران، نماینده اصفهان با بیمار توصیف کردن دانشجویانی که به دلایل صنفی اعتراض می کنند، گفت: "حالا اگر این امور را بدهیم به بخش خصوصی که بر آن نظارت نیست چه باید کرد؟"

او با اشاره به مشکلاتی که دشمنان از بیرون برای دانشگاه ایجاد می کنند، افزود: "اصلا اگر فردا اتفاقی به بهانه آش و پلو و خوابگاه در دانشگاه ایجاد شود باید یقه چه کسی را گرفت؟"

این بخش از مصوبه با وجود مخالفت ها به تصویب رسید. بنابر این در طول برنامه پنجم توسعه تمام بخش های رفاهی دانشگاهی به بخش خصوصی واگذار می شود.

بنابر مصوبه مجلس، دولت اجازه دارد که از ۱۰ دانشگاه برتر وابسته به وزارت علوم و ۵ دانشگاه وابسته به وزارت بهداشت حمایت ویژه کند.

بر اساس این بخش از مصوبه مجلس، دولت مجاز است که هزینه سرانه تربیت نیروی انسانی متخصص مورد نیاز کشور را در چارچوب بودجه ریزی عملیاتی برای هر دانشگاه و موسسه آموزشی سالانه تامین کند.

محمدرضا خباز، نماینده کاشمر در ارتباط با با اخطار قانون اساسی به این بند از لایحه اعتراض کرد و گفت: "در این بند به دلیل آن که منابع مالی بیشتری به دانشگاه هایی داده می شود که همگی در مناطق غیر محروم اند تبعیض آمیز است."

علی لاریجانی، رئیس مجلس ایران با وارد ندانستن این ایراد در پاسخ گفت که درقانون اساسی آمده است که باید توازن از نظر بهره برداری در استان ها رعایت شود و به دلیل تفاوت در مزیت ها، کمک های مالی نیز متفاوت خواهد بود.

معاون دانشجویی: کنکور را دور نزنید

از سوی دیگر وزارت علوم ایران برای بار پنجم آئین نامه بازنگری انتقال دانشجویان ایرانی خارج از کشور به ایران را تغییر داد.

محمد ملاباشی، معاون آموزشی وزارت علوم در بیان جزییات آئین نامه جدید ضمن اشاره به اینکه تسهیلات درنظر گرفته شده نباید انگیزه ای برای دور زدن کنکور باشد گفت: "نباید عده ای فکر کنند که با اخذ پذیرش و ثبت نام در یک دانشگاه خارجی می توانند به دانشگاه داخلی بیایند، زیرا که پیش از انتقال باید حداقل ۱۲ واحد درس اصلی را گذرانده باشند."

او این بازنگری را تلاشی برای بازگشت دانشجویان کاردانی و کارشناسی به ایران دانست تا بتوانند بدون محدودیت رشته و با کمترین سنوات و کمترین معدل که ۱۲ باشد به کشور بازگردند.

معاون آموزشی وزارت علوم بازنگری در آئین نامه انتقال دانشجویان را گامی در جهت رفع ابهام و سرگردانی دانشجویان ایرانی خارج از کشور دانست و گفت که پیش از این دانشجویان نمی دانستند که پس از بازگشت به کدام دانشگاه می روند و چقدر هزینه می پردازند.

آقای ملاباشی به تلاش وزارت علوم در زمینه معافیت تحصیلی دانشجویان اشاره کرد و گفت: "ما مسئولیتی در برابر دانشجویانی که ضوابط قانونی نظام وظیفه را رعایت نکرده اند نداریم، اما موفق شده ایم معافیت تحصیلی دانشجویان واحدهای بین الملل را از اداره نظام وظیفه بگیریم."

BBC

2 comments:

  1. ایران پر اس کے متنازعہ جوہری پروگرام کےتسلسل کےباعث سلامتی کونسل کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کے اثرات اب عام شہریوں کی زندگی پر دیکھے جا رہے ہیں۔


    العربیہ ٹی وی کے نامہ نگاروں کی ایک رپورٹ کے مطابق اقتصادی پابندیوں کے باعث ایران میں پٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتیں آسماں کو چھو رہی ہے.


    جبکہ ایک عام آدمی کے لیے مختصر مسافت تک ٹیکسی کا کرایہ ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔


    رپورٹ کے مطابق اس کی تازہ مثال ایران کے شمالی شہر "بوشہر" میں اس وقت دیکھی گئی .


    جب وہاں"چالوس" نامی یونیورسٹی کا ایک طالب علم ٹیکسی کے بجائے گدھے پر سوار ہو کر درسگاہ پہنچا۔


    طالب علم نے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر پہنچ کر اپنے گدھے سمیت اندر جانے کی کوشش کی تو وہاں موجود سیکیورٹی انتظامیہ نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔


    جب اسے پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا،


    تو گدھا سوار طالب علم کا کہنا تھا کہ "یہ سب اقتصادی پابندیوں کا ثمر ہے،


    جو بڑوں کی طرف سے عائد کی گئی ہیں۔


    اقتصادی پابندیوں کے باعث مہنگائی اور پٹرول انتا مہنگا ہو چکا کہ وہ ٹیکسی کا کرایہ ادا نہیں کرسکتا۔


    جس کے باعث اس نے سواری کے لیے صدیوں پرانا طریقہ اختیار کیا ہے"۔


    "عالمی بڑوں" سے ایرانی طالب علم کی مراد عالمی طاقتیں ہیں.


    جن کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔


    ایرانی یونیورسٹی کے کسی طالب کا یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایران میں اقتصادی پابندیوں کے باعث گرانی اور اشیائے صَرف کی قلت کی خبریں روزکا معمول بن چکی ہیں۔


    دوسری جانب ایرانی صدر عالمی پابندیوں کو صرف "کاغذ پر سیاہی"قرار دے چکےہیں۔


    احمدی نژاد وسط اکتوبر میں دورہ لبنان کے موقع پر لبنانی حکومت کو بھی پٹرول اور ڈیزل کی کم نرخوں پر فراہمی کا وعدہ کر چکے ہیں۔


    اقتصادی پابندیوں کے بے اثر ہونے کے دعوے صرف ایرانی صدر کی جانب سے نہیں بلکہ ایرانی انقلاب کے خامنہ ای بھی تکرار کے ساتھ ایسے دعوے کر چکے ہیں۔


    ادھر ملک میں تواتر کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی بحران کے تناظر میں ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں.


    یہ بحران سنہ 2009ء میں ہوئے صدارتی انتخابات کے بعد کے ہنگاموں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ معاشی زبوں حالی اور عام آدمی کی مشکلات بدستور قائم رہیں تو لوگ سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف سخت احتجاج کریں گے.


    جس سے احمدی نژاد کی حکومت کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔


    دوسری جانب حکومت نے عوامی احتجاج کو روکنےکے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کی لیڈرشپ کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنے کا بھی فیصلہ کر رکھا ہے۔
    ایران اور عراق پر اقتصادی پابندیوں کا موازنہ
    العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام پر عائدعالمی پابندیاں ماضی میں عراق پر عائد پابندیوں کے مشابہ ہیں۔


    ماہرین کا خیال ہے کہ زمینی سطح پر اقتصادی پابندیوں کے اثرات یکساں ہوں گے۔


    عوام کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔


    تاہم ماہرین ایران اور عراق پر اقتصادی پابندیوں کے حوالے سے ایک جوہری فرق ان ممالک کے داخلی صورت حال کےحوالے سے سامنے آ رہا ہے۔


    عراق پر اقتصادی پابندیوں اور سابق صدر صدام حسین کے دور میں عوام نے پابندیوں کا کڑوا گھونٹ صبر سے برداشت کیا، لیکن ایران میں ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔


    ایرانی سڑکوں پر نکل کر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر نہ صرف غور کر رہے ہیں بلکہ احتجاج جاری رکھے ہوئےہیں۔


    عراق میں صدام کے مقابلے میں اپوزیشن بہت کمزور تھی جبکہ ایرانی حکومت کی طاقت کے استعمال کی پالیسی کے باوجود اپوزیشن موثر اور عوام کو سڑکوں پر لانےکی صلاحیت رکتھی ہے۔


    ایرانی امور کے ماہر ایک عرب تجزیہ نگار احمد الشریفی نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "عراقی عوام صدام کی سخت گیری کی وجہ سے سڑکوں پر نکلنے سے گریزاں رہے.


    اور اقتصادی پابندیوں کی سختیوں کو خاموشی سے جھیل گئے.


    جبکہ ایران میں ایسا نہیں۔


    یہاں شہری حکومت کےخلاف احتجاج کے عادی ہو چکے ہیں۔


    اگرچہ ایرانی عوام کو بھی جون 2009ء کے صدارتی انتخابات کے متنازع نتائج پر طاقت سے دبانے کی کوشش کی گئی لیکن عملا احتجاج کا سلسلہ روکا نہیں جا سکا۔


    ان کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کویہ خدشہ اب بھی لاحق ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے باعث گرانی کی بڑھتی لہر اپوزیشن کو عوام کو سڑکوں پر لانے کی کال دینے پر مجبور کر سکتی ہے۔


    ایسی صورت میں حکومت کو مزید سخت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. ایران پر اس کے متنازعہ جوہری پروگرام کےتسلسل کےباعث سلامتی کونسل کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کے اثرات اب عام شہریوں کی زندگی پر دیکھے جا رہے ہیں۔


    العربیہ ٹی وی کے نامہ نگاروں کی ایک رپورٹ کے مطابق اقتصادی پابندیوں کے باعث ایران میں پٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتیں آسماں کو چھو رہی ہے.


    جبکہ ایک عام آدمی کے لیے مختصر مسافت تک ٹیکسی کا کرایہ ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔


    رپورٹ کے مطابق اس کی تازہ مثال ایران کے شمالی شہر "بوشہر" میں اس وقت دیکھی گئی .


    جب وہاں"چالوس" نامی یونیورسٹی کا ایک طالب علم ٹیکسی کے بجائے گدھے پر سوار ہو کر درسگاہ پہنچا۔


    طالب علم نے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر پہنچ کر اپنے گدھے سمیت اندر جانے کی کوشش کی تو وہاں موجود سیکیورٹی انتظامیہ نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔


    جب اسے پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا،


    تو گدھا سوار طالب علم کا کہنا تھا کہ "یہ سب اقتصادی پابندیوں کا ثمر ہے،


    جو بڑوں کی طرف سے عائد کی گئی ہیں۔


    اقتصادی پابندیوں کے باعث مہنگائی اور پٹرول انتا مہنگا ہو چکا کہ وہ ٹیکسی کا کرایہ ادا نہیں کرسکتا۔


    جس کے باعث اس نے سواری کے لیے صدیوں پرانا طریقہ اختیار کیا ہے"۔


    "عالمی بڑوں" سے ایرانی طالب علم کی مراد عالمی طاقتیں ہیں.


    جن کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔


    ایرانی یونیورسٹی کے کسی طالب کا یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایران میں اقتصادی پابندیوں کے باعث گرانی اور اشیائے صَرف کی قلت کی خبریں روزکا معمول بن چکی ہیں۔


    دوسری جانب ایرانی صدر عالمی پابندیوں کو صرف "کاغذ پر سیاہی"قرار دے چکےہیں۔


    احمدی نژاد وسط اکتوبر میں دورہ لبنان کے موقع پر لبنانی حکومت کو بھی پٹرول اور ڈیزل کی کم نرخوں پر فراہمی کا وعدہ کر چکے ہیں۔


    اقتصادی پابندیوں کے بے اثر ہونے کے دعوے صرف ایرانی صدر کی جانب سے نہیں بلکہ ایرانی انقلاب کے خامنہ ای بھی تکرار کے ساتھ ایسے دعوے کر چکے ہیں۔


    ادھر ملک میں تواتر کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی بحران کے تناظر میں ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں.


    یہ بحران سنہ 2009ء میں ہوئے صدارتی انتخابات کے بعد کے ہنگاموں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ معاشی زبوں حالی اور عام آدمی کی مشکلات بدستور قائم رہیں تو لوگ سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف سخت احتجاج کریں گے.


    جس سے احمدی نژاد کی حکومت کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔


    دوسری جانب حکومت نے عوامی احتجاج کو روکنےکے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کی لیڈرشپ کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنے کا بھی فیصلہ کر رکھا ہے۔
    ایران اور عراق پر اقتصادی پابندیوں کا موازنہ
    العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام پر عائدعالمی پابندیاں ماضی میں عراق پر عائد پابندیوں کے مشابہ ہیں۔


    ماہرین کا خیال ہے کہ زمینی سطح پر اقتصادی پابندیوں کے اثرات یکساں ہوں گے۔


    عوام کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔


    تاہم ماہرین ایران اور عراق پر اقتصادی پابندیوں کے حوالے سے ایک جوہری فرق ان ممالک کے داخلی صورت حال کےحوالے سے سامنے آ رہا ہے۔


    عراق پر اقتصادی پابندیوں اور سابق صدر صدام حسین کے دور میں عوام نے پابندیوں کا کڑوا گھونٹ صبر سے برداشت کیا، لیکن ایران میں ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔


    ایرانی سڑکوں پر نکل کر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر نہ صرف غور کر رہے ہیں بلکہ احتجاج جاری رکھے ہوئےہیں۔


    عراق میں صدام کے مقابلے میں اپوزیشن بہت کمزور تھی جبکہ ایرانی حکومت کی طاقت کے استعمال کی پالیسی کے باوجود اپوزیشن موثر اور عوام کو سڑکوں پر لانےکی صلاحیت رکتھی ہے۔


    ایرانی امور کے ماہر ایک عرب تجزیہ نگار احمد الشریفی نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "عراقی عوام صدام کی سخت گیری کی وجہ سے سڑکوں پر نکلنے سے گریزاں رہے.


    اور اقتصادی پابندیوں کی سختیوں کو خاموشی سے جھیل گئے.


    جبکہ ایران میں ایسا نہیں۔


    یہاں شہری حکومت کےخلاف احتجاج کے عادی ہو چکے ہیں۔


    اگرچہ ایرانی عوام کو بھی جون 2009ء کے صدارتی انتخابات کے متنازع نتائج پر طاقت سے دبانے کی کوشش کی گئی لیکن عملا احتجاج کا سلسلہ روکا نہیں جا سکا۔


    ان کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کویہ خدشہ اب بھی لاحق ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے باعث گرانی کی بڑھتی لہر اپوزیشن کو عوام کو سڑکوں پر لانے کی کال دینے پر مجبور کر سکتی ہے۔


    ایسی صورت میں حکومت کو مزید سخت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    ReplyDelete