سعودی فوج نے 420 سرحدی گاوں خالی کرا لئے
دبئی - العربية
سعودی عرب کی مسلح افواج اور یمن کے حوتی باغیوں کے درمیان حالیہ چند دنوں سے جاری جھڑپوں کے بعد ایک نئی پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے مطابق یمن سعودی عرب کے خلاف برسرپیکار شیعہ مسلک کے پیروکار یمن کے حوتی قبائل کو مبینہ طور پر پاکستانی جنگجووں کی مدد حاصل ہے۔
العربیۃ ٹی وی کے مطابق سعودی حکومت نے جازان کے سرحدی علاقے میں مزید گاوں خالی کرائے تا کہ یمن سے سعودی سرحد میں دراندازی کرنے والی حاتیوں کو گرفتار کیا جائے جا سکے۔
سعودی حکام نے سرحد پر واقع چار سو بیس سرحدی گاوں خالی کرائے ہیں۔ ان علاقوں میں سعودی فوج تعنیات کر دی گئی ہے،جہاں پر تلاش آپریشن کے دوران حوتی باغیوں کے ایک گروہ کو حراست میں لیکر ان کے قبضے سے اہم دستاویزات، نقشے اور مختلف نوعیت کا اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔
ادھر یمن حکومت نے حرف سفیان کے محاذ پر مزید فوجی کمک ارسال کی ہے تا کہ صعدہ کو رسد پہنچانے والا راستہ کھولا جا سکے۔
درایں اثنا یمنی وزیر خارجہ ابو بکر القربی نے ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ صنعاء نے باغی حوتیوں کا قلع قمع کرنے کے لئے امریکا سے فوجی امداد طلب کی ہے۔ مسٹر القربی کا کہنا تھا کہ صنعاء اور واشنگٹن کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے باہمی تعاون موجود ہے، اس کا یمن کی داخلی سلامتی سے متعلق دیگر امور پر چنداں اطلاق نہیں ہوتا۔
یمنی وزیر خارجہ نے اپنے اخباری بیان میں مزید بتایا ہے کہ حوتی باغیوں سے بڑے پیمانے پر قبضے میں لیا جانے والا اسلحہ ثابت کرتا ہے کہ کوئی خارجی قوت یمن کا امن خراب کرنا چاہتی ہے۔ وزیرخارجہ نے مقامی انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے بتایا ایران میں چند غیر حکومتی عناصر ایسے ہیں کہ جو یمن کی داخلی سلامتی کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ حوتی باغیوں کے لئےغیر ملکی امداد سے متعلق یمنی وزیر خارجہ کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے کہ جب امریکی رپورٹوں میں بھی خبردار کیا جا رہا ہے کہ حوتی باغیوں اور یمنی فوج کے درمیان جاری معرکہ آرائی خلیجی خطے کے لئے خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔
سعودی روزنامے "الوطن" نے اتوار کے روز اپنی اشاعت میں بتایا ہے کہ سعودی فرمانروا عبد اللہ بن عبدالعزیز کو یمنی صدر علی عبد اللہ الصالح کا ایک خط ملا ہے۔ خادم الحرمین الشریفین کوعلی عبد اللہ الصالح کا یہ خصوصی خط یمنی نائب وزیر اعظم برائے دفاع اور لوکل مینجمنٹ ڈاکٹر رشاد محمد عليمی نے پہنچایا۔
No comments:
Post a Comment