امریکا اورایرانی حکومت کے خلاف الگ الگ احتجاجی مظاہرے
دبئی.نجاح محمدعلی
ایران کے دارالحکومت تہران میں اپوزیشن کے حامیوں نے ریلی نکالی ہے جسے منتشر کرنے کے لئے ایرانی پولیس نے آنسوگیس کے گولے پھینکے اور لاٹھی چارج کیا اور ریلی میں شریک متعددافراد کو گرفتار کرلیا ہے.
ایرانی پولیس اورمظاہرین کے درمیان تہران کے مرکزی چوک میں جھڑپیں ہوئی ہیں جہاں اپوزیشن کے حامی احتجاج کے لئے جمع ہوئے تھے جبکہ دوسری جانب ہزاروں ایرانیوں نے بند امریکی سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کیا ہے.امریکا کے خلاف یہ مظاہرہ تیس سال قبل طلبہ کے سفارتخانے پر حملے کی برسی کے موقع پر کیا گیا ہے.
عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے مظاہرے میں شریک حزب اختلاف کے سیکڑوں حامیوں کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کیا اور ان پر آنسو گیس کے گولے پھینکے لیکن انہوں نے احتجاج کئے بغیر جانے سے انکار کردیا.
مغرب مخالف ریلیاں
تہران میں امریکا کے سابق سفارتخانے کے باہرایرانیوں کی بڑی تعداد نے جمع ہوکر مظاہرہ کیا.انہوں نے ''مرگ بر امریکا'' اور''مرگ براسرائیل'' کے نعرے لگائے.اس موقع پر انہوں نے امریکا کی علامت انکل سام کے پتلے بھی نذرآتش کئے.
اپوزیشن لیڈروں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی نے اپنے حامیوں پر زوردیا تھا کہ وہ سڑکوں پر آکر صدر محمود احمدی نژاد کی حکومت کے خلاف مظاہرے کریں.
ایران کے پاسداران انقلاب اوران سے وابستہ باسیج ملیشیا نے اپوزیشن کو خبردار کیا تھا کہ وہ امریکا مخالف ریلیوں کے موقع پر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے سے گریز کریں.مہدی کروبی اور میرحسین موسوی کے حامی ابھی تک جون کے متنازعہ صدراتی انتخابات کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں.
ایک عینی شاہد نے بتایاہے کہ اپوزیشن کو احتجاج سے روکنے کے لئے تہران کے مرکزی چوک میں سیکڑوں پولیس اہلکار،باسیج ملیشیا اور سادہ کپڑوں میں سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا.
ایک اورعینی شاہد کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کے وسط میں واقع برطانوی سفارتخانے کے اردگرد بیسیوں پولیس اہلکار تعینات کئے گئے تھے.اسی طرح روسی سفارتخانے کے باہر بھی پولیس اور باسیج فورسز کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا.
اصلاح پسندوں کی بعض ویب سائٹس نے لوگوں پر زوردیا تھا کہ وہ محمود احمدی نژاد کے بطور صدر دوبارہ انتخاب کو تسلیم کرنے پر ماسکو کے خلاف احتجاج کے لئے روسی سفارتخانے کے باہر جمع ہوں.
ایران ایک راستہ کا انتخاب کرے
درایں اثناء امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ایران کو اب یہ انتخاب کرنا ہوگا کہ اسے مواقع اور خوشحالی کے لئے دروازہ کھولنا ہے یا ماضی سے ہی چمٹے رہنا ہے.
براک اوباما نے امریکی سفارتخانے کو جلانے کے واقعہ کی تیسویں برسی کے موقع پرایک بیان میں کہا کہ ''ہم گذشتہ تیس سال سے یہ سن رہے ہیں کہ ایرانی حکومت کس کے خلاف ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا''.
انہوں نے کہا کہ ''اب وقت آگیا ہے کہ ایرانی حکومت یہ فیصلہ کرے کہ اس نے ماضی ہی پراصرار کرنا ہے یا وہ اس راستے کا انتخاب کرے گی جس سے اس کے عوام کے لئے زیادہ مواقع،خوشحالی اورانصاف کے دروازے کھلیں گے''.
یادرہے کہ ایرانی جنگجوٶں اور طلبہ نے 4نومبر 1979ء کو امریکی سفارتخانے پر حملہ کرکے اسے نذرآتش کردیا تھا اور اس کے عملے کے باون ارکان کوگرفتار کرلیا تھا جنہیں چارسوچوالیس روزتک یرغمال بنائے رکھا تھا.
1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرنے والے طلبہ لیڈروں میں سے بعض لوگ اس وقت جون کے صدارتی انتخابات کے بعد حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں بیسیوں اصلاح پسند رہ نماٶں کے ساتھ جیلوں میں قید ہیں.
ستمبر میں فلسطینیوں کے حق میں سالانہ یوم القدس کے موقع پر نکالی گئی ریلیوں کے دوران بھی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کی حکومت کے حامیوں اور اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں.واضح رہے کہ ایرانی حکام صدارتی انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلیوں کی تردید کرچکے ہیں اوران کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف مظاہرین کوغیرملکی عناصر کی حمایت حاصل ہے جس کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانا ہے.
دبئی.نجاح محمدعلی
ایران کے دارالحکومت تہران میں اپوزیشن کے حامیوں نے ریلی نکالی ہے جسے منتشر کرنے کے لئے ایرانی پولیس نے آنسوگیس کے گولے پھینکے اور لاٹھی چارج کیا اور ریلی میں شریک متعددافراد کو گرفتار کرلیا ہے.
ایرانی پولیس اورمظاہرین کے درمیان تہران کے مرکزی چوک میں جھڑپیں ہوئی ہیں جہاں اپوزیشن کے حامی احتجاج کے لئے جمع ہوئے تھے جبکہ دوسری جانب ہزاروں ایرانیوں نے بند امریکی سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کیا ہے.امریکا کے خلاف یہ مظاہرہ تیس سال قبل طلبہ کے سفارتخانے پر حملے کی برسی کے موقع پر کیا گیا ہے.
عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے مظاہرے میں شریک حزب اختلاف کے سیکڑوں حامیوں کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کیا اور ان پر آنسو گیس کے گولے پھینکے لیکن انہوں نے احتجاج کئے بغیر جانے سے انکار کردیا.
مغرب مخالف ریلیاں
تہران میں امریکا کے سابق سفارتخانے کے باہرایرانیوں کی بڑی تعداد نے جمع ہوکر مظاہرہ کیا.انہوں نے ''مرگ بر امریکا'' اور''مرگ براسرائیل'' کے نعرے لگائے.اس موقع پر انہوں نے امریکا کی علامت انکل سام کے پتلے بھی نذرآتش کئے.
اپوزیشن لیڈروں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی نے اپنے حامیوں پر زوردیا تھا کہ وہ سڑکوں پر آکر صدر محمود احمدی نژاد کی حکومت کے خلاف مظاہرے کریں.
ایران کے پاسداران انقلاب اوران سے وابستہ باسیج ملیشیا نے اپوزیشن کو خبردار کیا تھا کہ وہ امریکا مخالف ریلیوں کے موقع پر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے سے گریز کریں.مہدی کروبی اور میرحسین موسوی کے حامی ابھی تک جون کے متنازعہ صدراتی انتخابات کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں.
ایک عینی شاہد نے بتایاہے کہ اپوزیشن کو احتجاج سے روکنے کے لئے تہران کے مرکزی چوک میں سیکڑوں پولیس اہلکار،باسیج ملیشیا اور سادہ کپڑوں میں سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا.
ایک اورعینی شاہد کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کے وسط میں واقع برطانوی سفارتخانے کے اردگرد بیسیوں پولیس اہلکار تعینات کئے گئے تھے.اسی طرح روسی سفارتخانے کے باہر بھی پولیس اور باسیج فورسز کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا.
اصلاح پسندوں کی بعض ویب سائٹس نے لوگوں پر زوردیا تھا کہ وہ محمود احمدی نژاد کے بطور صدر دوبارہ انتخاب کو تسلیم کرنے پر ماسکو کے خلاف احتجاج کے لئے روسی سفارتخانے کے باہر جمع ہوں.
ایران ایک راستہ کا انتخاب کرے
درایں اثناء امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ایران کو اب یہ انتخاب کرنا ہوگا کہ اسے مواقع اور خوشحالی کے لئے دروازہ کھولنا ہے یا ماضی سے ہی چمٹے رہنا ہے.
براک اوباما نے امریکی سفارتخانے کو جلانے کے واقعہ کی تیسویں برسی کے موقع پرایک بیان میں کہا کہ ''ہم گذشتہ تیس سال سے یہ سن رہے ہیں کہ ایرانی حکومت کس کے خلاف ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا''.
انہوں نے کہا کہ ''اب وقت آگیا ہے کہ ایرانی حکومت یہ فیصلہ کرے کہ اس نے ماضی ہی پراصرار کرنا ہے یا وہ اس راستے کا انتخاب کرے گی جس سے اس کے عوام کے لئے زیادہ مواقع،خوشحالی اورانصاف کے دروازے کھلیں گے''.
یادرہے کہ ایرانی جنگجوٶں اور طلبہ نے 4نومبر 1979ء کو امریکی سفارتخانے پر حملہ کرکے اسے نذرآتش کردیا تھا اور اس کے عملے کے باون ارکان کوگرفتار کرلیا تھا جنہیں چارسوچوالیس روزتک یرغمال بنائے رکھا تھا.
1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرنے والے طلبہ لیڈروں میں سے بعض لوگ اس وقت جون کے صدارتی انتخابات کے بعد حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں بیسیوں اصلاح پسند رہ نماٶں کے ساتھ جیلوں میں قید ہیں.
ستمبر میں فلسطینیوں کے حق میں سالانہ یوم القدس کے موقع پر نکالی گئی ریلیوں کے دوران بھی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کی حکومت کے حامیوں اور اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں.واضح رہے کہ ایرانی حکام صدارتی انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلیوں کی تردید کرچکے ہیں اوران کا کہنا ہے کہ حکومت مخالف مظاہرین کوغیرملکی عناصر کی حمایت حاصل ہے جس کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانا ہے.
No comments:
Post a Comment