Long live free and united Balochistan

Long live free and united Balochistan

Search This Blog

Translate

ٹارگٹ کلنگ اور بلوچستان پیکیج


ایوب ترین


بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


بلوچستان کے عوام کے لیے سال دو ہزار نو، لاپتہ افراد اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی وجہ سے مایوسی اور خوف وہراس کا سال رہا تاہم حکومت نے آغازِ حقوق بلوچستان پیکج کی صورت میں اسے کامیابی کا سال قرار دیا ہے۔
بلوچستان میں سال رواں کے دوسرے ہی ماہ میں امن و امان کی صورتحال اس وقت اچانک خراب ہوگئی جب کوئٹہ کی چمن ہاؤسنگ سکیم سے بلوچ لبریشن یونائٹیڈ فرنٹ کے کارکنوں نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین بلوچستان کے سربراہ جان سلیکی کو اغواء کر لیا۔ بلوچ مزاحمت کاروں نے اس اغواء کا مقصد بلوچستان کے مسائل کی جانب اقوامِ متحدہ کی توجہ مبذول کروانا تھا۔
کلِک بلوچستان کا مسئلہ: خصوصی ضمیمہ
کلِک جان سلیکی کو تو دو ماہ سے زائد عرصے تک مغوی بنائے رکھنے کے بعد چار اپریل کو رہا کر دیا گیا لیکن ان کی رہائی سے ایک دن قبل اس عمل میں اہم کردار ادا کرنے والی دس رکنی مصالحتی کمیٹی کے دو ارکان غلام محمد اور شیر بلوچ اپنے ایک ساتھی منیر لالہ سمیت لاپتہ ہوگئے۔


جان سلیکی کی زندہ سلامت واپسی کا انتظام کرنے والے ان رہنماؤں کی لاشیں آٹھ اپریل کو تربت کے علاقے پداگ سے ملیں۔ اس واقعے پر پورا کلِک بلوچستان سراپا احتجاج بن گیا اور پانچ دن تک صوبہ بھر میں ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے۔
بلوچ قوم پرستوں نے ان افراد کے قتل کی ذمہ داری پاکستان کے خفیہ اداروں پر عائد کی تاہم حکومت کی جانب سے اس کی تردید کی گئی۔ احتجاج کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ تمپ ہائی سکول میں خواتین اور بچوں کے ایک مظاہرے پر فرنٹیئر کور کے جوانوں کی مبینہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک طالب علم مختاراحمد ہلاک اور ایک خاتون شہناز بی بی شدید زخمی ہوگئیں۔
جہاں ایک جانب بلوچ قوم پرست رہنماؤں کی گمشدگی اور ہلاکتوں کا مسئلہ دو ہزار نو میں گرم رہا وہیں کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ مزاحمت کاروں کی جانب سے اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ اور سکولوں پر دستی بموں سے حملوں کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا۔کلِک ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات میں صوبے بھر میں تین سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت کا تعلق صوبہ پنجاب اور شیعہ مسلک سے تھا۔ ہلاک شدگان میں سابق صوبائی وزیر تعلم شفیق احمد خان بھی شامل تھے جن کی قتل کی ذمہ داری بلوچ لبریشن یونائٹڈ فرنٹ نے قبول کی تھی ـ


دو ہزار نو کے اوائل میں ہی پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان کی سربراہی میں ایک مصالحتی کمیٹی نے بلوچ قوم پرستوں سے رابطوں کے لیے بلوچستان کا دورہ کیا لیکن زیادہ تر بلوچ قوم پرستوں نے اس وقت مذاکراتی عمل میں شریک ہونے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ جب تک بلوچستان میں جاری آپریشن بند نہیں ہوگا اور لاپتہ بلوچ افراد کو منظر عام پر نہیں لا جائےگا اس وقت تک پاکستان کی مرکزی حکومت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
مذاکرات کی ان کوششوں میں ناکامی کے بعد سال کے آخر میں چوبیس نومبر کو حکومتِ پاکستان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے، کلِک آغاز حقوق بلوچستان پیکیج پیش کیا جس میں حکومت نے بلوچستان میں فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر بند کرنے، لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے اور بلوچستان کے پانچ ہزار تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روز گار دینے کا اعلان کیا۔
جہاں اس پیکیج کا بلوچستان کے کلِک بے روزگار نوجوانوں نے خیرمقدم کیا وہیں زیادہ تر بلوچ قوم پرستوں نے اسے مسترد کر دیا اور بلوچ ری بپلکن پارٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر حکیم لہڑی نے کہا کہ بلوچ عوام نے بلوچستان کی آزادی کے لیے قربانی دی تھی اور بلوچستان کی آزادی سے کم وہ کسی پیکیج کو قبول نہیں کریں گے۔


اس بیان پر حکومت نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ پاکستان کی بقاء کے لیے کسی کو بلوچستان کی آزادی نہیں دی جائے گی جبکہ وزیراعلٰی بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچ مزاحمت کاروں سے بالواسطہ رابطے قائم ہیں اور وفاقی حکومت کی جانب سے آئینی پیکیج آنے کے بعد ہی بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے بلوچ مزاحمت کاروں سے بات چیت کا آغاز کیا جائے گا۔
رواں برس بلوچستان کا نام ایک مرتبہ اس وقت بھی خبروں میں آیا جب ایران کے سیستان بلوچستان علاقے میں ایک خودکش حملے میں ایرانی کے اعلٰی فوجی حکام سمیت چالیس افراد مارے گئے۔ ایران نے اس حملے کی ذمہ داری کلِک جند اللہ نامی تنظیم پر عائد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس تنظیم کا سرغنہ پاکستانی بلوچستان میں روپوش ہے۔ تاہم حکومتِ پاکستان نے کہا کہ پاکستان کسی کو بھی ہمسایہ ملک کے خلاف بلوچستان کی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
جنداللہ کے مسئلے پر پاکستان اور ایران کے درمیان تناؤ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سال کے آخری مہینوں میں امریکی ذرائع ابلاغ میں کلِک ’کوئٹہ شوریٰ‘، کے نام سے طالبان قیادت کی کوئٹہ میں موجودگی کی باتیں ہونے لگیں۔اس سے قبل مارچ دو ہزار نو میں یہ تجویز بھی سامنے آئی تھی کہ امریکہ کو طالبان کے خلاف بلوچستان میں ڈرون حملے کرنے چاہیئیں۔ تاہم وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے ان دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی کے پاس کوئٹہ میں طالبان کی موجودگی کے شواہد نہیں ہیں۔


BBC Urdu

No comments:

Post a Comment