حکومت بلوچستان نے آسٹریلوی کمپنی سے اربوں روپے کے سونے اور تانبے کے ریکوڈیک منصوبے کا معاہدہ منسوخ کردیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ حکومت بلوچستان پاکستان کے مرکزی حکومت کے تعاون سے اس منصوبے کو خود چلائے گی یہ معاہدہ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا تھا۔
بلوچستان صو بائی کابینہ کا اجلاس جمعرات کو کو ئٹہ میں وزیر اعلٰیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ایک آسٹریلوی کمپنی نتیان کے ساتھ سابق فوجی دور حکومت میں ہونے والے اربوں روپے کے ریکوڈک کے منصوبے کے معاہدے کو منسوخ کردیاگیا اور فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے اس منصوبے کو حکومت بلوچستان پاکستان کی مرکزی حکومت کے تعاون سے خود چلائے گی۔
اس سلسلے میں صوبائی وزیر تعمیرات میر صادق عمرانی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کوبتایا ہے کہ بلوچستان کی حکومت نے یہ فیصلہ بلوچستان کے عوام کے بہترین مفاد میں کیا ہے۔ انہوں نے بتا یا کہ تینتیس لاکھ سینتالیس ہزار ایکٹر پر واقع اس منصوبے کا معاہد ہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہواتھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر از خود مزید کام کرنے کے لیے ایک اطالوی کمپنی سے معاہدہ کر لیا اور کوشش کی کہ گودار پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبا کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو ٹوٹل آمدنی کا صرف پچیس فیصد حصہ ملنا تھا۔
اس سے قبل صوبائی کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے چیف سکریٹری بلوچستان ناصر محمود کھوسہ نے کہا ہے کہ آسٹریلوی کمپنی کو صرف سونا تلاش کرنے کا کام دیاگیا تھا جس کے بعد وزیر اعلٰی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے وسائل پر دسترس حاصل کرنے کے لیے یہ معاہدہ منسوخ کیا ہے اور اس کی مزید لیز پر نہیں دیں گے۔
بلوچستان میں گوادر پورٹ اور سیندک کے بعدریکوڈک تیسرا بڑا منصوبہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ریکوڈک میں اس وقت چار اعشاریہ پانچ ملین ٹن سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
صوبائی حکومت کی جانب سے اس منصوبے کو قابل عمل بنانے کی صورت میں روزانہ پندرہ ہزار ٹن سونا اور تانبا نکالا جا سکتا ہے جس سے بلوچستان کے عوام کو سالانہ اربوں روپے کی آمدنی ہوگی۔
خیال رہے کہ سابق فوجی دور حکومت میں بلوچستان کی ترقی کے نام سیندک کے سونے اور تانبے کا منصوبہ چین کو دیا گیا تھا اور چین کو دوہزار گیارہ تک سیندک سے سونا اور تانبا نکالنے کا اختیار ہے لیکن صوبائی حکومت نے سیندک جیسے اہم منصوبے پر تاحال خاموشی اختیار کر رکھی ہے حالانکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین سیندک سے سونے اور تانبے کے ذخائر کا ایک بڑا حصہ نکال کر لے جا چکا ہے، جس کی آمدنی میں سے چین بلوچستان کو صرف ایک فیصد اور پاکستان کو اُنیس فیصد دے رہا ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے ہمیشہ اس کی مخالف کی ہے اور کہا ہے کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل لوٹنے میں حکومت پاکستان کے ساتھ کئی ممالک برابر کے شریک ہیں جب کہ بلوچستان کے عوام اپنے وسائل پر اپناحق چاہتے ہیں۔
BBC Urdu
بلوچستان صو بائی کابینہ کا اجلاس جمعرات کو کو ئٹہ میں وزیر اعلٰیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ایک آسٹریلوی کمپنی نتیان کے ساتھ سابق فوجی دور حکومت میں ہونے والے اربوں روپے کے ریکوڈک کے منصوبے کے معاہدے کو منسوخ کردیاگیا اور فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے اس منصوبے کو حکومت بلوچستان پاکستان کی مرکزی حکومت کے تعاون سے خود چلائے گی۔
اس سلسلے میں صوبائی وزیر تعمیرات میر صادق عمرانی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کوبتایا ہے کہ بلوچستان کی حکومت نے یہ فیصلہ بلوچستان کے عوام کے بہترین مفاد میں کیا ہے۔ انہوں نے بتا یا کہ تینتیس لاکھ سینتالیس ہزار ایکٹر پر واقع اس منصوبے کا معاہد ہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہواتھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر از خود مزید کام کرنے کے لیے ایک اطالوی کمپنی سے معاہدہ کر لیا اور کوشش کی کہ گودار پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبا کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو ٹوٹل آمدنی کا صرف پچیس فیصد حصہ ملنا تھا۔
اس سے قبل صوبائی کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے چیف سکریٹری بلوچستان ناصر محمود کھوسہ نے کہا ہے کہ آسٹریلوی کمپنی کو صرف سونا تلاش کرنے کا کام دیاگیا تھا جس کے بعد وزیر اعلٰی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے وسائل پر دسترس حاصل کرنے کے لیے یہ معاہدہ منسوخ کیا ہے اور اس کی مزید لیز پر نہیں دیں گے۔
بلوچستان میں گوادر پورٹ اور سیندک کے بعدریکوڈک تیسرا بڑا منصوبہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ریکوڈک میں اس وقت چار اعشاریہ پانچ ملین ٹن سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
صوبائی حکومت کی جانب سے اس منصوبے کو قابل عمل بنانے کی صورت میں روزانہ پندرہ ہزار ٹن سونا اور تانبا نکالا جا سکتا ہے جس سے بلوچستان کے عوام کو سالانہ اربوں روپے کی آمدنی ہوگی۔
خیال رہے کہ سابق فوجی دور حکومت میں بلوچستان کی ترقی کے نام سیندک کے سونے اور تانبے کا منصوبہ چین کو دیا گیا تھا اور چین کو دوہزار گیارہ تک سیندک سے سونا اور تانبا نکالنے کا اختیار ہے لیکن صوبائی حکومت نے سیندک جیسے اہم منصوبے پر تاحال خاموشی اختیار کر رکھی ہے حالانکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین سیندک سے سونے اور تانبے کے ذخائر کا ایک بڑا حصہ نکال کر لے جا چکا ہے، جس کی آمدنی میں سے چین بلوچستان کو صرف ایک فیصد اور پاکستان کو اُنیس فیصد دے رہا ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے ہمیشہ اس کی مخالف کی ہے اور کہا ہے کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل لوٹنے میں حکومت پاکستان کے ساتھ کئی ممالک برابر کے شریک ہیں جب کہ بلوچستان کے عوام اپنے وسائل پر اپناحق چاہتے ہیں۔
BBC Urdu
No comments:
Post a Comment