بگٹی برسی: بلوچستان میں مکمل ہڑتال
بلوچستان کے بزرگ سیاست دان نواب محمد اکبرخان بگٹی کی پانچویں برسی جمعہ کو عقیدت واحترام سے منائی گئی۔ اس موقع پرصوبہ بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔
جمہوری وطن پارٹی اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کی اپیل پر صوبہ بھر میں یوم سیاہ منانے کے ساتھ ساتھ شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال ہوئی تاہم کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق بزرگ سیاست دان نواب محمد اکبر بگٹی کی پانچویں برسی کے موقع پر جمعہ کو صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے اکثربڑے شہروں میں شٹرڈاون اور پہیہ جام ہڑتال ہوئی ۔اس موقع پر تمام دکانیں اورکاروباری مراکزبند رہے جبکہ سڑکوں پرٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔
بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی اور ان کے دیگر ساٹھ ساتھی چھبیس اگست سنہ دو ہزارچھ کو فوجی آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں ڈیرہ بگٹی اور کوہلوکے درمیانی علاقے ترتانی کے پہاڑوں میں ہلاک ہوئے۔
کوئٹہ میں بعض مظاہرین نے سڑکوں پرٹائرجلائے لیکن کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس کے علاوہ نوشکی، تربت،گوادر، پنجگور، ڈیرہ اللہ یار، ڈیرہ مراد جمالی اورقلات میں بھی مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال ہوئی۔
ہڑتال کی کال جمہور ی وطن پارٹی اور بلوچ ریپبلکن پارٹی نے دی تھی جبکہ نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جماعتِ اسلامی کے علاوہ تاجروں اور ٹرانسپورٹروں نے بھی ہڑتال کی حمایت کی تھی۔
بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی اور ان کے دیگر ساٹھ ساتھی چھبیس اگست سنہ دو ہزارچھ کو فوجی آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں ڈیرہ بگٹی اور کوہلوکے درمیانی علاقے ترتانی کے پہاڑوں میں ہلاک ہوئے۔
نواب بگٹی کی ہلاکت کے بعد گذشتہ پانچ سال کے دوران صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگرعلاقوں میں نہ صرف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا بلکہ ٹارگٹ کلنگ اور اغواء کی وارداتوں میں بھی تیزی آئی
نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں پرتشدد ہنگامے شروع ہوئے جس میں مشتعل افراد نے سرکاری اور غیرسرکاری املاک کونقصان پہنچایا۔ جس کے باعث بلوچستان میں ایک ہفتے تک زندگی مفلوج ہوکررہ گئی تھی۔
جمہوری وطن پارٹی کے سابق سربراہ نواب محمد اکبرخاب بگٹی بارہ جولائی سنہ انیس سوسائیس کو بلوچستان کے ضلع بارکھان میں پیدا ہوئے۔انہوں نے ابتدائی تعلم گرائمر سکول کراچی جبکہ اعلی تعلیم ایچ سن کالج لاہور سے حاصل کی۔
نواب اکبربگٹی کا شمار پاکستان کے سنئیرسیاستدانوں میں ہوتا تھا اور وہ وفاقی وزیرِدفاع، وزیرِداخلہ کے علاوہ گورنراور وزیرِاعلی بلوچستان کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
نواب اکبر بگٹی نے سولہ اگست سنہ انیس سو نوے میں جمہوری وطن پارٹی بنائی اور زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے بلوچستان کے حقوق کے حصول کے لیے بلوچ قوم پرستوں کو ایک سنگل پارٹی کے تحت محتدکرنے کی کوشش جاری رکھیں جوبار آور ثابت نہ ہوسکیں۔
نواب محمد اکبر بگٹی کی پانچویں برسی کے موقع پر جمعہ کو صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے اکثربڑے شہروں میں شٹرڈاون اور پیہہ جام ہڑتال ہوئی ۔اس موقع پر تمام دکانیں اورکاروباری مراکزبند رہے جبکہ سڑکوں پرٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی
نواب بگٹی کے صاحبزادے جمیل اکبر بگٹی نے سنہ دو ہزار نو میں اپنے والدکے قتل کے الزام میں سابق فوجی صدر جنرل(ریٹائرڈ) پرویزمشرف، سابق وزیرِاعظم شوکت عزیز، سابق وفاقی وزیرِداخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ، سابق گورنربلوچستان اویس احمدغنی اورسابق وزیرِاعلی بلوچستان میرجام یوسف کے علاوہ دیگرافراد کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دائرکی۔
نواب بگٹی کی ہلاکت کے بعد گذشتہ پانچ سال کے دوران صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگرعلاقوں میں نہ صرف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا بلکہ ٹارگٹ کلنگ اور اغواء کی وارداتوں میں بھی تیزی آئی۔
ادھر وفاقی حکومت نے بلوچستان کے حالا ت کو بہترکرنے کے لیے تین سال قبل نہ صرف آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج پیش کیا بلکہ نواب بگٹی قتل کیس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی تشکیل دیا جس نے ابھی تک کام شروع نہیں کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے حالات کو بہترکرنے کے لیے حکومت فوری طور پرنواب بگٹی قتل میں ملوث ملزمان کوگرفتار کر کے انہیں سزائیں دے تاکہ بلوچوں کا حکومت پر اعتماد بحال ہو سکے۔
No comments:
Post a Comment