Long live free and united Balochistan

Long live free and united Balochistan

Search This Blog

Translate

35لاکھ پاکستانی بچے مہلک بیماریوں کے خطرے سے دوچار

سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں پاکستانی بچوں کی جانوں کو آلودہ پانی سے ہیضے سمیت لاحق ہونے والی بیماریوں سے خطرہ ہے۔
اسلام آباد۔ایجنسیاں

اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے بعداب متاثرہ علاقوں میں آلودہ پانی سے وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے جس سے پینتیس لاکھ بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی امورکے رابطہ دفتر کے ترجمان مورزیوگیالیانو نے کہا ہے کہ''عالمی ادارہ صحت سیلاب زدہ علاقوں میں ہیضے کی وبا پھوٹنے کی صورت میں لاکھوں لوگوں کے علاج کے لیے معاونت کی غرض سے تیاری کررہا ہے''۔

انہوں نے ایک غیرملکی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''ڈبلیوایچ او ہیضے کا مرض پھیلنے کی صورت میں ایک لاکھ چالیس ہزار لوگوں کی معاونت کی تیاری کررہا ہے لیکن پاکستانی حکومت نے ابھی تک ہیضے کے کسی کیس کی تصدیق نہیں کی''۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ''سیلاب زدہ علاقوں میں آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے پینتیس لاکھ بچوں کی زندگیوں کوخطرات لاحق ہیں اوران میں آلودہ پانی کے استعمال سے لاحق ہونے والامہلک مرض ہیضہ بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ ٹائیفائیڈ بخار اور ہیپاٹائیٹس اے اورای بھی تشویش کا سبب ہیں''۔ انہوں نے مزید کہا کہ وبائی امراض سے مجموعی طور پرساٹھ لاکھ کے لگ بھگ افراد خطرات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔

مورزیوگیالیانوکا کہنا تھا کہ ''ہمارے لیے تشویش کی سب سے بڑی وجہ پانی اور صحت ہے کیونکہ آلودہ پانی سے پیداہونے والی بیماریوں سے بچنے کے لیےصاف پانی کی فراہمی ناگزیرہے۔سیلاب کے دوران پانی بری طرح آلودہ ہوچکا ہے اور متاثرہ علاقوں میں پینے کے لیے صاف پانی کی کمی ہے''۔

اقوام متحدہ کے رابطہ دفتربرائے انسانی امورنے خبردارکیا ہے کہ اگرسیلاب زدگان کوبروقت امدادبہم نہ پہنچائی گئی تو پاکستان اموات کی دوسری لہر کے کنارے کھڑاہوگا۔

ادارےکے ترجمان گیالیانونے مزیدکہا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں''آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ہمارے پاس اس وقت ان اموات کے کوئی حتمی اعدادوشمار تونہیں لیکن عالمی ادارہ صحت پاکستانی حکومت کی مددکے لیے مہلک امراض سے مرنے والوں کے اعدادوشماراکٹھے کرنے کے لیے دن رات کام کررہا ہے''۔

No comments:

Post a Comment