July 11, 2014زاہد بلوچ ایک بلوچ کارکن، قوم پرست اور علیحدگی پسند تنظیم بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن (آزاد) کے سربراہ ہیں۔
زاہد بلوچ کو کچھ عرصے پہلے اغوا کر کے کسی نا معلوم جگہ پر لے جایا گیا ہے۔ زاہد کی بیوی زرجان بلوچ اور ان کے دو بیٹے یہ نہیں جانتے کہ وہ زاہد بلوچ کو کبھی دوبارہ دیکھ سکیں گے یا نہیں۔
اسی بارے میں
لطیف جوہر کی 46 روزہ بھوک ہڑتال کا خاتمہ
ڈاکٹر مالک بھی، لطیف جوہر کی بھوک ہڑتال ختم کرانے میں ناکام
بلوچستان: تین برسوں میں612 مسخ شدہ لاشیں برآمد
متعلقہ عنوانات
پاکستان, بلوچستان
زاہد بلوچ کی بیوی ایک بیٹا اور چند رشتہ دار اور ساتھی اسلام آباد میں موجود ہیں۔ ایک بڑے سے کوکاکولا بل بورڈ کے سامنے ایک گراؤنڈ میں ایک ٹینٹ ہے۔ یہ جگہ پریس کلب کے سامنے ہے اور ٹینٹ کے اندر زرجان ان کے تین سالہ بیٹا، تین رشتہ دار اور چند ساتھی بیٹھے ہیں۔
دوپہر کا وقت ہے، اور بہت گرمی ہے لیکن زرجان بھوک ہڑتال پر ہیں اور وہ یہی چاہتی ہیں کہ ان کے شوہر کو عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ ان کو اور ان کے خاندان کو یہ تو پتا چلے کہ وہ کن حالات میں ہیں۔
زرجان کا کہنا ہے: ’میں امید سے آئی ہوں۔ ساری دنیا سے اپیل کرنا چاہتی ہوں، اگر انھوں نے کوئی گناہ کیا ہے تو اس پر مقدمہ چلایا جائے۔
’انھوں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ ہمارا پورا خاندان بہت غم زدہ ہے۔ تین مہینے ہو گئے ہیں اور ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ کیسے ہیں۔‘
جب زاہد بلوچ کی رہائی کی امیدوں کے بارے میں پوچھا تو پاکستان یوتھ الائنس کی سربراہ نور اے مریم نے بتایا: ’صاف بات ہے ہمیں بالکل بھی امید نہیں ہے ایجنسیوں اور حکومت نے کوئی نوٹس یا ایکشن نہیں لیا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رمضان ہونے کی وجہ سے اور گرمی کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہوتی جا رہی ہے اور کوئی لوگ انھیں اپنے گھر میں رکھنے سے جھجکتے ہیں کیونکہ پھر ایجنسی والے انھیں تنگ کرتے ہیں۔‘
جب زاہد بلوچ کے رشتہ دار سے یہ پوچھا کہ کیا انھیں امید ہے کہ وہ ایک دن زاہد بلوچ سے ملیں گی تو ان کا جواب تھا کہ وہ بہت امیدوں کے ساتھ خضدار سے اسلام آباد آئی ہیں۔
زاہد بلوچ کی رہائی کے لیے کراچی میں بی ایس او آزاد کے کارکن لطیف جوہر نے بھی چھ ہفتے تک بھوک ہڑتال کی جسے ختم کرانے کے لیے وزیرِ اعلی بلوچستان عبدالمالک بھی آئے
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ خاندان کے سرپرست تھے اور جب سرپرست کو لے کر اٹھا لیا جائے تو خاندان اجڑ جاتا ہے، ہم بیان نہیں کر سکتے کہ ہمارے گھر کے حالات کتنے مشکل ہیں۔‘
زاہد بلوچ کی رہائی کے لیے کراچی میں بی ایس او آزاد کے کارکن لطیف جوہر نے بھی چھ ہفتے تک بھوک ہڑتال کی جسے بعد ازاں سینیئر بلوچ رہنماؤں کی اپیل پر ہڑتال ختم کیا۔
انھوں نے تنظیم کے چیئرمین زاہد بلوچ کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف 22 اپریل کو تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال کا آغاز کیا تھا۔
ادھر پاکستان انسانی حقوق کمیشن نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ایچ آر ایس سی پی کا کہنا ہے کہ زاہد بلوچ کو 18 مارچ کو کوئٹہ سے سادہ کپڑوں میں ملبوس سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اغوا کیا تھا۔
تنظیم کے مطابق سب سے زیادہ پریشان کن بات زاہد کی غیر تسلیم شدہ حراست ہے جسے اب کافی عرصہ ہو چکا ہے۔
زاہد بلوچ کو کچھ عرصے پہلے اغوا کر کے کسی نا معلوم جگہ پر لے جایا گیا ہے۔ زاہد کی بیوی زرجان بلوچ اور ان کے دو بیٹے یہ نہیں جانتے کہ وہ زاہد بلوچ کو کبھی دوبارہ دیکھ سکیں گے یا نہیں۔
اسی بارے میں
لطیف جوہر کی 46 روزہ بھوک ہڑتال کا خاتمہ
ڈاکٹر مالک بھی، لطیف جوہر کی بھوک ہڑتال ختم کرانے میں ناکام
بلوچستان: تین برسوں میں612 مسخ شدہ لاشیں برآمد
متعلقہ عنوانات
پاکستان, بلوچستان
زاہد بلوچ کی بیوی ایک بیٹا اور چند رشتہ دار اور ساتھی اسلام آباد میں موجود ہیں۔ ایک بڑے سے کوکاکولا بل بورڈ کے سامنے ایک گراؤنڈ میں ایک ٹینٹ ہے۔ یہ جگہ پریس کلب کے سامنے ہے اور ٹینٹ کے اندر زرجان ان کے تین سالہ بیٹا، تین رشتہ دار اور چند ساتھی بیٹھے ہیں۔
دوپہر کا وقت ہے، اور بہت گرمی ہے لیکن زرجان بھوک ہڑتال پر ہیں اور وہ یہی چاہتی ہیں کہ ان کے شوہر کو عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ ان کو اور ان کے خاندان کو یہ تو پتا چلے کہ وہ کن حالات میں ہیں۔
زرجان کا کہنا ہے: ’میں امید سے آئی ہوں۔ ساری دنیا سے اپیل کرنا چاہتی ہوں، اگر انھوں نے کوئی گناہ کیا ہے تو اس پر مقدمہ چلایا جائے۔
’انھوں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ ہمارا پورا خاندان بہت غم زدہ ہے۔ تین مہینے ہو گئے ہیں اور ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ کیسے ہیں۔‘
جب زاہد بلوچ کی رہائی کی امیدوں کے بارے میں پوچھا تو پاکستان یوتھ الائنس کی سربراہ نور اے مریم نے بتایا: ’صاف بات ہے ہمیں بالکل بھی امید نہیں ہے ایجنسیوں اور حکومت نے کوئی نوٹس یا ایکشن نہیں لیا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رمضان ہونے کی وجہ سے اور گرمی کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہوتی جا رہی ہے اور کوئی لوگ انھیں اپنے گھر میں رکھنے سے جھجکتے ہیں کیونکہ پھر ایجنسی والے انھیں تنگ کرتے ہیں۔‘
جب زاہد بلوچ کے رشتہ دار سے یہ پوچھا کہ کیا انھیں امید ہے کہ وہ ایک دن زاہد بلوچ سے ملیں گی تو ان کا جواب تھا کہ وہ بہت امیدوں کے ساتھ خضدار سے اسلام آباد آئی ہیں۔
زاہد بلوچ کی رہائی کے لیے کراچی میں بی ایس او آزاد کے کارکن لطیف جوہر نے بھی چھ ہفتے تک بھوک ہڑتال کی جسے ختم کرانے کے لیے وزیرِ اعلی بلوچستان عبدالمالک بھی آئے
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ خاندان کے سرپرست تھے اور جب سرپرست کو لے کر اٹھا لیا جائے تو خاندان اجڑ جاتا ہے، ہم بیان نہیں کر سکتے کہ ہمارے گھر کے حالات کتنے مشکل ہیں۔‘
زاہد بلوچ کی رہائی کے لیے کراچی میں بی ایس او آزاد کے کارکن لطیف جوہر نے بھی چھ ہفتے تک بھوک ہڑتال کی جسے بعد ازاں سینیئر بلوچ رہنماؤں کی اپیل پر ہڑتال ختم کیا۔
انھوں نے تنظیم کے چیئرمین زاہد بلوچ کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف 22 اپریل کو تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال کا آغاز کیا تھا۔
ادھر پاکستان انسانی حقوق کمیشن نے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان کی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ایچ آر ایس سی پی کا کہنا ہے کہ زاہد بلوچ کو 18 مارچ کو کوئٹہ سے سادہ کپڑوں میں ملبوس سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اغوا کیا تھا۔
تنظیم کے مطابق سب سے زیادہ پریشان کن بات زاہد کی غیر تسلیم شدہ حراست ہے جسے اب کافی عرصہ ہو چکا ہے۔
Read more at http://baluch.us/?p=3787#yx74CfBT75oZVuzZ.99
No comments:
Post a Comment