پاکستانی معاشرے میں بلوچ عورت کا مقام
ثیم انور
زرجان بلوچ ایک ایسا نام جس سے پاکستان کی آدھی سے ذیادہ آبادی یقیناً ناواقف ہے۔
زرجان بلوچ ریاستی اداروں کے ہاتھوں اغواء ہونے والے بی ایس او آزاد کے چیئرمین ذاہد بلوچ کی بیوی ہے۔ زاہد بلوچ کو 13 مارچ 2014 کو کوئٹہ سے ایف سی کئی لوگوں کی موجودگی میں اٹھا کر لے گئی تھی۔ زرجان بلوچ اس وقت اپنے کمسن بیٹے قمبر کے ساتھ اسلام آباد پریس کلب کے بایر اپنے شوہر کی بازیابی کیلیے بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہیں۔
اس سے پہلے اپریل 2014 کو لطیف جوہر بھی زاہد بلوچ کی بازیابی کے لئے کراچی پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ لطیف جوہر کی بھوک ہڑتال سول سوسائٹی اور دیگر اداروں نے اس وعدے پر ختم کروائی تھی کہ زاہد بلوچ کی بازیابی کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔ اور یہ انہیں جھوٹے وعدوں اور دعووں کا نتیجہ ہے کہ اب لطیف جوہر کے بعد زاہد بلوچ کی بیوی گونگے اور بہرے انصاف کے دعوے داروں کے سامنے اپنے شوہر کی بازیابی کی لئے بھوک ہڑتال کر رہی ہیں۔ شدید گرمی کے موسم میں اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اپنے ننھے منے بچے کے ساتھ انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے۔ لیکن اس عورت کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
انصاف کے ایوانوں اور حکمرانوں کی بے حسی ایک طرف، لیکن پاکستانی میڈیا بھی اس معاملے میں چپ کے قفل لگائے بیٹھا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں بنتِ حوا کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم و ستم پر میڈیا کی بریکنگ نیوز، تبصرے اور رپورٹوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن جب معاملہ ہو بلوچ عورت کے حقوق کی پامالی کا تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یا تو بلوچ عورت اس سسٹم کا حصہ نہیں، یا اس کے حقوق کی کوئی اہمیت نہیں، یا پھر شاید وہ عورت ہی نہیں۔ پاکستان کا کوئی ایک بھی ایسا نیوز چینل نہیں جس نے زرجان بلوچ کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو اپنی خبروں کا حصہ بنایا ہو۔
چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ اے آر وائی اور جنگ نیوز کی جنگ اور حامد میر کی بلوچوں کے حقوق پر لب کشائی کی سزا سے اسٹبلشمنٹ نے پاکستانی میڈیا کو ڈرا دھمکا کر قابو کر لیا اور میڈیا اپنی بقاء کی خاطر بلوچوں کے معاملے میں اندھا، گونگا اور بہرہ بن گیا۔ لیکن دوسری طرف بلوچستان کی صوبائی حکومت کی بے حسی پر سر شرم سے جھک جاتا ہے وہ بھی ایسی حکومت جس کا سربراہ خود ایک بلوچ ہو۔ وزیرِاعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ سے بہتر بلوچ معاشرے میں عورت کے مقام کو کون سمجھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ بھی گوارا نہیں کیا کہ زر جان بلوچ سے اظہارِ ہمدردی کرتے۔ کریمہ بلوچ کے بعد ڈاکٹر مالک نے ایک اور بلوچ بیٹی کو دھکے کھانے کے لئے تنہا چھوڑ دیا۔ معذرت کے ساتھ لیکن ڈاکٹر مالک بلوچ نے بلوچوں کے سر شرمندگی سے جھکا دیئے اور بلوچی روایات و اقدار کو داغدار کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ اصولاَ بحیثیتِ بلوچ اور بحثیت وزیرِاعلیٰ بلوچستان انہیں زرجان بلوچ کے پاس جانا چاہیئے تھا اور اسے چادر اور چاردیواری کا تحفظ واپس کرنا چاہیئے تھا لیکن ان کی بلوچی حمیت و غیرت بھی اقتدار کی بھینٹ چڑھ گئی۔
گو کہ آج کے پاکستان میں کسی بھی عورت کی عزت محفوظ نہیں مگر ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف میڈیا، سول سوسائٹی، سوموٹو نوٹس، حکومت کے فوری ایکشن۔۔۔ کچھ تو ہے۔ لیکن بلوچ عورت کے ساتھ ہونے والی ذیادتیوں کے خلاف وہ اکیلی ہے۔ پاکستانی عورت اور بلوچ عورت کے درمیان واضح تفریق کا کیا مطلب نکالا جائے؟ زرینہ بلوچ، کریمہ بلوچ، زرجان بلوچ، بلوچ لڑکیوں کی تعلیم پر بندش اور اربابِ اختیار کی بند زبانیں اور پھر ایسے میں یہ امید رکھنا کہ بلوچ قوم پاکستان سے محبت کریں، پاک فوج ذندہ باد کے نعرے لگائیں، یا پھر بلوچ مائیں اپنے بچوں کو پاکستان بننے کی لازوال داستانیں سنا کر بڑا کریں تو یہ ہماری خام خیالی سے ذیادہ اور کچھ نہیں-
No comments:
Post a Comment