Long live free and united Balochistan

Long live free and united Balochistan

Search This Blog

Translate

خفیہ اداروں کے ہاتھوں زندہ بچ جانے والا بلوچ کی کہانی......


Shaheed Ghulam mohammad
خفیہ اداروں کے ہاتھوں زندہ بچ جانے والا بلوچ کی کہانی......
بلوچستان میں جاری قومی جدوجہد میں جہاں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے تو دوسری جانب قابض نے بھی اپنی مظالم بڑھا دیے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں سرکار عام سے شہریوں کو اس بنا پر گرفتار یا اغوا کرکے قتل نہیں کرتی کہ وہ فلاں قوم یا مذہب اور زبان سے تعلق رکھتا ہو۔
پاکستان دنیامیں شاید واحد ملک ہوگا جہاں انسانی حقوق کے تمام نکات آکر دم توڑ دیتے ہیں۔ جہاںعالمی منشوربرائے انسانی حقوق، عالمی جنگی قوانین، خواتین کے حقوق، اقلیتوں کی تحفظ اور قوموں پر اپنی مسلط ختم کرنے کے دستور نام کی کوئی بھی شے موجود نہیںَ۔ جہاں نہ تو دستور مدینہ موجود ہے اور نہ ہی دستور اقوام متحدہ ۔ بلکہ صرف ایک ہی دستور چلتا ہے قوموں کو غلام بنا کر رکھنا، دین کو دنیا کے لئے بلیک میل کا زریعہ بنانا، اور جو بھی محکوم قوم اپنی حقوق کی بات کریں انہیں قتل کردینا یا زندانوں میں پابند سلاسل رکھنا۔
یورپ میں اکثر بلوچ آتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک بلوچ کے متعلق سنا کہ وہ قلی کیمپ کا اسیر رہچکا تھا اور شدید زخمی حالات میں اسے چھوڑاگیاجو کہ خوش قسمتی سے بچ گیا اور کافی دھکے کھا کر باہر پہنچ گیا ۔ان کی اپنی زبانی ان کی کہانی سادہ الفاظ میں سنیں۔
۔۔۔
جس کال کوٹھٹری میں بند تھا وہاں ایک اور بلوچ پہلے سے موجود تھابالکل اندھیرا چک سیاہ کمرہ کچھ بھی نظر نہ آئے صرف آذانوں کی آوازیں سنائی دیتی تھی۔ اس بلوچ کی آواز کو سنتا تھا روز رو رو کر دعائیں مانگا کرتاتھا کہ اے اللہ میرے گھر کا توں ہی والی و وارث ہو۔ جب میں نے آواز دی اور پوچھا آپ کو کیوں لے آئیں آپ کون ہو ۔ تو انھوں نے جواب دیا میرا قصور یہ تھا کہ میں لکڑیاں چننے کے لئے جنگل میں جارہا تھا کہ مجھے پکڑ کر ادھر لے آئیں اور کہا اب بھی بندے پورے نہیں ہورئے ہیں۔ شاید سبی میں ہونے والی دھماکے کے ردعمل میں جو بھی ہاتھ آئے پکڑ کر لے گئے ۔
وہ بگٹی بلوچی بولی بول رہے تھے میں چونکہ براہویاور خشانی بلوچی تھا تو مجھے بگٹی بلوچی سمجھنے میں تھوڑی سی دشواری ہورہی تھی۔ انھوں نے پھر اردومیں مجھے بتانا شروع کیا۔انھوں نے کہا کہ میرا گھر ڈیرہ بگٹی کے گاوں سے ہے اور میرے گھر میں میری ایک والدہ اور ایک چھوٹی بہن کے سوا اور کوئی بھی نہیں بابا کاسایہ بچپن سے ہی گزر گیا تھا۔ یہ بلوچ میرے ساتھ کم و پیش دس دن کال کو ٹھٹری میں ایک ساتھ رہا ہوگا اور مجھے نہیں لگتا کسی بھی ایک دن انھوں نے اپنی ماں اور چھوٹی بہن کو یاد نہ کیا ہو۔
وہ اکثر کہتا تھا کہ مجھے افسوس یہ نہیں کہ مجھے مار ڈا لےگے بلکہ افسوس یہ کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا اگر پتہ ہوتا یہی لوگ یوں ہی پکڑ کر ماردینگے تو میں بھی شاید کچھ کرلیتا ۔۔
میری اپنی کہانی بھی کچھ یوں ہی ہے مجھے بھی صرف بلوچ ہونے کے ناطے اور شال میں ہونے والے دھماکے کے افراد کی گرفتاری کو پورا کرنے کے سبب مجھے اٹھالے آئے تھے ۔۔ کچھ دنوں بعد کال کوٹھڑی میں خفیہ ادارے والے اندر آکر گالیاں بکنے کے بعد اس نوجوان کو اپنے ساتھ لے گئے۔ پھراس کے بعد سے آج تک کچھ خبر نہیں وہ کہاں ہے ۔اس کی فریاد آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے اور دل بہت اداس ہوتا ہے۔
میرے ساتھ کچھ یوں ہوا یہ لوگ مجھے سندھ کے بارڈر میں مار کر پھنک کر چلے گئے تھے لیکن اللہ کو جو منظور تھا مجھے گاوں کے لوگو ں نے اٹھاکر ایک سال تک لاڑکانہ میں رکھا پھر چانڈکا ہسپتال میں علاج مکمل ہونے کے بعد میں کسی طرح باہر ملک پہنچ گیا۔ میری گرفتاری بھی کچھ ان سے مشابہترکھتی تھی کیونکہ میں بے قصور تھا، نہ میں کسی جماعت کاممبر تھا اور نہ ہی کسی مسلح تنظیم سے وابستگی تھی ۔ میرا قصور یہ تھا کہ میں نے اپنے موٹر سائیکل پر آزاد بلوچستان لکھا تھا۔
جب مجھے اغوا کیا گیا تھا میں سمجھا بس اب زندگی ختم ہوگی ۔ پیچھے گھر والوں کو خبر ہی نہیں کہ میں کہا ں ہوں کیونکہ میرا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعلق ہی نہ تھا بس کبھی کبھارمیراحمد کی دا ملک خواجائی کو سنا کرتا تھا ۔ کلی اسماعیل میں آناجاتا لگا رہتا تھا۔۔ جب میں بچ نکلا تو گھر والوں سے رابطہ کیا تو گھر والوں نے یقین تک نہیں کیا کیونکہ کہ ایک مدت گزرنا کے بعدلوگ بھول جاتے ہیں کیونکہ بلوچستان کے حالات کو دیکھ کر ہر کوئی مایوس ہی ہو جاتا ہے ۔۔۔خدا نے ایک نئی زندگی دی جتنا شکر کروں کم ہے اور دعاکرتا ہوں کہ کال کوٹھڑی میں قید تمام بلوچ سلامت اور زندہ بازیاب ہوجائیں۔
قارئین اس طرح کے بیشمار بلوچ جو قابض کے عقوبت خانوں میں پابند سلال ہے اور ان کا کسی بھی سرگرمیوں میں کوئی شمولیت بھی نہ ہونے کے باوجود زندگی اور موت کے کشمکش میں وقت گزرا رہے ہیں۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بے انداز اور دلخراش پامالیاں قدم قدم پر ملتی ہیں ۔ عالمی اداروں کو عملا اس جانب اقدام کرنے ہوں گے تاکہ قید خانوں میں اسیر بلوچوں کی زندگیاں محفوظ بنایا جا سکیں۔

No comments:

Post a Comment