Long live free and united Balochistan

Long live free and united Balochistan

Search This Blog

Translate

گھر جلتےگئے ہم تنقید کرتے گئے . جنازے اُٹھتے گئے ہم الزام لگاتے گئے.


Báláác Bálóc
گھر جلتےگئے ہم تنقید کرتے گئے .
جنازے اُٹھتے گئے ہم الزام لگاتے گئے.
تحریر : اسماعیل بلوچ
ہم فیس بُکّی سرمچاروں نے گزشتہ 4 سالوں سے دشمن کے بجائےاپنے رھنماہوں پر کچھ زیادہ کاروائیاں کی ہیں.
جس سے بلوچ قومی تحریک سے وابستہ نوجوانو ں کی بجائے زہنی و سیاسی تربیت کے ان کے زہنوں کو سطحی بنانے کی دانستہ کوشش کی گئی .
جزباتی و زاتی انا سے لبریز غیر سنجیدہ تحریروں سے نامعلوم زاتی فوائد پر منتج نتائج حاصل کرنے کی بہت کوشش کی گئی جس سے قومی تحریک کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا .
مگر تحریک کو حاصل کچھ نہیں ہوا.
گھر جلتےگئے ہم تنقید کرتے گئے .
جنازے اُٹھتے گئے ہم الزام لگاتے گئے.
کسی کو ہم نے منشات پروش کہ کر کاہونٹر کرنے کی کوشش کی .
کسی کو ہم نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ کہ کر کاہونٹر کرنے کی کوشش کی.
کسی کو ہم نے بلا مشروط مزاکرات کرنے کا لیبل لگا کر کاہونٹر کرنے کی کوشش کی
جس پر ہم نے منشیات کا الزام لگایا تها وہ آج منشیات کو ختم کرنے کی عملی جدوجہد کررہے ہیں .
جس کو ہم نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا اُس کو ہم کبھی ثابت کر نہیں پائے.
جس کو ہم نے بلا مشروط مزاکرات کرنے کا الزام لگایا وہ سیاسی لیڈر ہے. اور اُس نے صاف الفاظوں میں بیان کیا ہے ہم بلا مشروط کس طرح مزاکرات کرینگے؟ ہم نے تو صرف ڈپلومیٹیک بیان دیا ہے.
اور یہ تمام خضرات جہد آزادی میں انتہائی خدمات انجام دے رہے ہیں
ہم ان کوکہتے گئے وہ کام کرتے گئے
وہ قوم کو اتحاد کرنے کی کوشش کرتے گئے ہم منتشر کرتے گئے .وہ
اتحاد و یکجہتی کے برائے راست پیغامات جاری کرتے گئے ہم اپنے دو کیلومیٹر لمبی جهوٹی تحریوں میں سیاسی اصتلاحات و موٹے موٹے الفاظوں کا چُناؤں کرکے یہی ثابت کرنے میں مصروف رہے کہ ہم سے بڑا دانشور تو کوئی نہیں ہے لہذا یہ یکجہتی کا نعرہ فریب ہے
ہم نے سرمچاروں کو چور کہا مگر شھید ہونے کے بعد ان کو سر زمین کی عظیم فرزند کا لقب دیا.
ہم نے سیاسی ورکروں کو ڈبل ایجنٹ کہا مگر اغواہ ہونے کے بعد ان کو دور اندیش و نیلسن منڈیلا سے تعبیر کیا
میں کس کس چیز پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرو جس سے ھمیں سمجھنے میں آسانی ہو..!!
ایک دن میں نے ایک دانشور سے کہا واجہ فلحان لیڈر کو آپ لوگ کس بنیاد پر لیڈر قبول نہیں کرتے؟ کیا وہ قربانی نہیں دے رہا ہے؟ یا تنظیم کو سہی طریقے سے نہیں چلا رہا ہے ؟ یا وہ تحریک کو کسی اور موڑ پر لے جانے کی کوشش کررہا ہے ؟
تو اُس دانشور نے بازاری الفاظ استعمال کرکے اُن کی چھوٹی چھوٹی تنظیمی غلطیوں کو بیان کرکے کہا کیا لیڈر یہی ہوتا ہے جو اپنے کارکنوں کو سمبھال نہیں سکتاں ؟ کیا لیڈر یہی ہوتا ہے وہ دن میں چار چار بار فوٹو سیشن کرکے قوم کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ میں صرف ہیرو ہوں ؟
میں ایسے لیڈروں کو لیڑر نہیں مانتا اور میں قوم کو سمجھانہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ان جیسے لوگوں کو اپنا لیڈر قبول نہیں کریں .
یہ اُس دانشور کے الفاظ ہیں
اس دانشور کی باتوں کو میں تشریع نہیں کروگا کیونکہ یہ الفاظ خود تشریع کردہ الفاظ ہیں
اصل میں میں یہی کہنا چا ہتا ہوں اب ھمیں انا و حسد کو چھوڑ کر اور "نامعلوم" نتائج کے لیے نہیں بلکہ سہی معنوں میں اپنے منزل کی طرف گامزن ہونا ہے .
ہمیں اپنے اداروں کا احترام کرنا ہے اپنے تمام لیڈر شپ و سیاسی و مزاحمتی دوستوں کا احترام و حوصلہ افزائی کرنا ہوگی
سوشل میڈا میں فائدہ مند تحریروں سے استفادہ کرنا ہوگا اور غیر سنجیدہ اور کردارکُش تحریروں کو اگنور کرنا ہوگا
کسی بھی لیڈر و ادارے کے خلاف کچھ بھی کہنے سے گریز کرنا ہوگا
تنقید کے لیے ہمارے پاس ہمارے سیاسی ادارے موجود ہیں .
اگر ہم خود بھی کسی پر کوئی تنقید کریں تو اخلاق کے دائرے کے اندر رہ کر تعمیری تنقید کریں جس سے کسی تنظیم یا شخص کی شخصیت کو نقصان نہ پہنچے .اس طرح تنقید نہ کریں جس سے وہ کبھی اُٹھ کڑا نہ ہوسکے .

No comments:

Post a Comment