لاپتہ بلوچوں کے لیے لانگ مارچ، شرکا اپنی آخری منزل پر
پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے شرکا تقریباً 2500 کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنے کے بعد جمعے کو وفاقی دارالحکومت پہنچ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں یہ افراد اقوام متحدہ کے دفتر جاکر اپنی معروضات اور مطالبات پر مبنی یادداشت پیش کریں گے اور دھرنا دیں گے۔
کلِک ٹاکنگ پوائنٹ:ماما قدیر سے سوال پوچھیے
اس لانگ مارچ میں نو خواتین ، تین بچے اور پانچ مرد شامل ہیں اور اس کی قیادت لاپتہ بلوچوں کے ورثا کی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے رہنما قدیر بلوچ کر رہے ہیں۔
دو مراحل پر مشتمل مارچ کا آغاز گذشتہ برس 27 اکتوبر کو کوئٹہ سے ہوا تھا اور اس کے شرکا 22 نومبر کو کراچی پہنچے تھے اور وہاں احتجاجی کیمپ لگایا تھا۔
دوسرے مرحلے میں ان افراد نے 13 دسمبر کو کراچی سے اسلام آباد کے لیے اپنا سفر شروع کیا تھا اور 75 دن کے سفر کے بعد وہ جمعرات کو راولپنڈی پہنچے جہاں سے وہ دارالحکومت جائیں گے۔
راولپنڈی پہنچنے کے بعد بی بی سی اردو سے بات کرتے لانگ مارچ کے روحِ رواں ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ اقوام متحدہ کو بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے اور وہ اقوامِ متحدہ کے دفتر کے سامنے دھرنا دیں گے اور یادداشت پیش کریں گے کہ اقوامِ متحدہ بلوچستان میں جاری کارروائیاں بند کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈالے۔
اسی لانگ مارچ میں میٹرک کی طالبہ سمی بلوچ بھی شریک ہیں جن کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ چار برس سے لاپتہ ہیں۔
بی بی سی سے بات چیت میں سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ ’چار برس سے میں اپنے والد کے لیے بھوک ہڑتالی کیمپ پر بیٹھی ہوں۔ میرے ابو کا کیس سپریم کورٹ، ہائی کورٹ میں گیا ہے، چشم دید گواہ پیش کیے گئے لیکن انھیں بازیاب نہیں کروایا جا سکا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پیروں میں چھالے پڑگئے لیکن ہمارے حوصلے بلند تھے اور ہم اپنے پیاروں کی تلاش میں آج یہاں تک آ چکے ہیں۔ ابھی تک ہمیں کوئی انصاف دلانے والا نہیں اور آگے دیکھتے ہیں کہ ہمیں انصاف ملے گا یا نہیں۔‘
خیال رہے کہ بلوچستان میں لوگوں کی جبراً گمشدگیوں کا سلسلہ 2002 میں شروع ہوا تھا جس کے بعد سے ایسے افراد کی تعداد کے بارے میں متضاد دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔
صوبائی محکمۂ داخلہ ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بتاتا ہے جبکہ حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم ادارے اور بلوچ تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد 1500 سے زیادہے۔
بلوچ تنظیمیں ان افراد کی گمشدگی کا ذمہ دار سکیورٹی اور خفیہ اداروں کو قرار دیتی ہیں تاہم حکام ان الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے شرکا تقریباً 2500 کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنے کے بعد جمعے کو وفاقی دارالحکومت پہنچ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں یہ افراد اقوام متحدہ کے دفتر جاکر اپنی معروضات اور مطالبات پر مبنی یادداشت پیش کریں گے اور دھرنا دیں گے۔
کلِک ٹاکنگ پوائنٹ:ماما قدیر سے سوال پوچھیے
اس لانگ مارچ میں نو خواتین ، تین بچے اور پانچ مرد شامل ہیں اور اس کی قیادت لاپتہ بلوچوں کے ورثا کی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے رہنما قدیر بلوچ کر رہے ہیں۔
دو مراحل پر مشتمل مارچ کا آغاز گذشتہ برس 27 اکتوبر کو کوئٹہ سے ہوا تھا اور اس کے شرکا 22 نومبر کو کراچی پہنچے تھے اور وہاں احتجاجی کیمپ لگایا تھا۔
دوسرے مرحلے میں ان افراد نے 13 دسمبر کو کراچی سے اسلام آباد کے لیے اپنا سفر شروع کیا تھا اور 75 دن کے سفر کے بعد وہ جمعرات کو راولپنڈی پہنچے جہاں سے وہ دارالحکومت جائیں گے۔
راولپنڈی پہنچنے کے بعد بی بی سی اردو سے بات کرتے لانگ مارچ کے روحِ رواں ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ اقوام متحدہ کو بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے اور وہ اقوامِ متحدہ کے دفتر کے سامنے دھرنا دیں گے اور یادداشت پیش کریں گے کہ اقوامِ متحدہ بلوچستان میں جاری کارروائیاں بند کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈالے۔
اسی لانگ مارچ میں میٹرک کی طالبہ سمی بلوچ بھی شریک ہیں جن کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ چار برس سے لاپتہ ہیں۔
بی بی سی سے بات چیت میں سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ ’چار برس سے میں اپنے والد کے لیے بھوک ہڑتالی کیمپ پر بیٹھی ہوں۔ میرے ابو کا کیس سپریم کورٹ، ہائی کورٹ میں گیا ہے، چشم دید گواہ پیش کیے گئے لیکن انھیں بازیاب نہیں کروایا جا سکا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پیروں میں چھالے پڑگئے لیکن ہمارے حوصلے بلند تھے اور ہم اپنے پیاروں کی تلاش میں آج یہاں تک آ چکے ہیں۔ ابھی تک ہمیں کوئی انصاف دلانے والا نہیں اور آگے دیکھتے ہیں کہ ہمیں انصاف ملے گا یا نہیں۔‘
خیال رہے کہ بلوچستان میں لوگوں کی جبراً گمشدگیوں کا سلسلہ 2002 میں شروع ہوا تھا جس کے بعد سے ایسے افراد کی تعداد کے بارے میں متضاد دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔
صوبائی محکمۂ داخلہ ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بتاتا ہے جبکہ حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم ادارے اور بلوچ تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد 1500 سے زیادہے۔
بلوچ تنظیمیں ان افراد کی گمشدگی کا ذمہ دار سکیورٹی اور خفیہ اداروں کو قرار دیتی ہیں تاہم حکام ان الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment