Long live free and united Balochistan

Long live free and united Balochistan

Search This Blog

Translate

جائیںسیدھا بی بی سی سرچ پر جائیںمدد

’ہم لوگ آزادی لینے جارہے ہیں، آپ لوگ ہمارا ساتھ دیتے ہیں تو تھینک یو ویری مچ ۔ اگر نہیں تو تب بھی ہم اپنی آزادی لے کر رہیں گے۔‘

یہ الفاظ کہنہ مشق بلوچ دانشور اور شاعر و قوم پرست نظریات کے حامل ڈاکٹر ملک ٹوگی نے کوئی آٹھ برس قبل امریکی سینیٹ کی اسی عمارت میں ایک سماعت کے دوران کہے تھے جہاں اب گزشتہ بدھ کو بلوچستان پر عوامی سماعت ہوئی جس میں کئی امریکی سینیٹرز اور دانشور و تجزیہ کار کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر ملک ٹوگی جیسوں کے خیالات و جذبات کی عکاسی کرتے لگے۔

کلِک امریکہ میں بلوچستان پر بحث، پاکستان کو تشویش


لفظ بلوچ، بلوچستان، اور بلوچستان کے ساتھ زیادتیوں کی باز گشت امریکی ایوانوں تک کوئی ایک دن یا چند برسوں میں نہیں پہنچی، ان کے پہنچانے میں کئي برس، عشرے اور بلوچ اور بلوچوں کے ہمدرد و دوست امریکیوں کی عمریں لگی ہیں۔

بلوچ دردِ دل کا بیج بونے والوں کا یہ درخت اسے لگانے والوں کو ابھی سایہ تو نہیں دے رہا لیکن تناور اور بڑا ضرور ہوگیا ہے۔

پھر وہ بلوچ درد رکھنے والا دل ایرانی بلوچ کا ہو کہ پاکستانی بلوچ کا یا چاہے وہ عراقی بلوچ ہو کہ خلیجی بلوچ۔ ذکر ان کا ضروری ہے جنہوں نے یہ بُوٹا امریکہ میں لگایا تھا۔

ڈاکٹر مالک ٹوگی شاید پاکستانی اور ایرانی بلوچوں میں پہلے بلوچ تھے جو سیاسی جلاوطن ہوکر امریکہ پہنچے تھے۔

ایرانی بلوچستان میں پیدا ہونے والے مالک ٹوگی نے اپنی جوانی کا بڑا عرصہ کراچی اور پاکستانی بلوچستان میں بھی گزارا۔ ڈاکٹر مالک ٹوگی بلوچ قوم پرستی کی تحریک سے وابستہ ہونے کی وجہ سے پہلے پاکسانی حکمرانوں کے عتاب کا شکار ہوکر اپنے آبائي وطن ایرانی بلوچستان چلے گئے لیکن وہاں بھی وہ شاہ ایران کی ساواک کی نظروں سے زیادہ عرصہ بچ نہیں سکے اور ان سے جان بچاتے ہوئے امریکہ پہنچے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر مالک ٹوگی امریکہ کے اس وقت کے زبردست دوست شاہ ایران کی حکومت کے سیاسی منحرف کے طور امریکہ پہنچے تھے۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حسین حقانی اور بہت سے جماعتی منحرفین کی طرح ڈاکٹر مالک ٹوگی بھی کراچی میں زمانہ طالب علمی میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے سرگرم کارکن رہے لیکن جلد ہی لیاری اور کوئٹہ کے بلوچ سیاسی اکابرین کے ہتھے چڑہ گئے اور جماعت کو خیرباد کہہ کر بلوچ قوم پرست سیست و بلوچ ادب سے جڑ گئے۔

ڈاکٹر مالک ٹوگی محنت کش تھے اور اپنی روزی روٹی کے لیے کچھ عرصہ وہ پاکستان کے محمکۂ اطلاعات میں بھی ملازم رہے لیکن دوران ملازمت خیر بخش مری اور اکبر بگلٹی جیسے بلوچ رہنماؤں سے ملاقاتوں پر پاکستانی ریاستی اداروں نے ان کی زندگی اجیرن کردی اور وہ ایران چلے گئے۔

مشی گن یونیورسٹی سے مذہبی علوم میں ڈاکٹریٹ کرنے والے ڈاکٹر ٹوگی کی ڈیزرٹیشن یا تحقیقی مقالے کا انتساب انہوں نے سلمان رشدی کو کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹر ٹوگی بلوچی کے بہت اچھے شاعر ہیں اور اکبر بگٹی سے ان کی پرانی دوستی تھی۔

شاید ڈاکٹر ٹوگی ان چند اوائلی بلوچ دانشوروں اور قوم پرست کارکنوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے انیس سو ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران امریکی محقق سیلگ ہیریسن کو بلوچ سرکشی اور آپریشن پر کام کرنے کو دعورت دی تھی۔

لیکن ڈاکٹر سیلگ ہیریسن بلوچ قوم پرستوں اور بلوچ سیاست کے شاگردوں میں مالک ٹوگی سے زیادہ مقبول رہے ہیں۔ بلکہ میں سیلگ ہیرسن کو بلوچ دل رکھنے والا امریکی کہوں گا-

انیس سو اسّی کی دہائی میں مکمل ہوکر چھپنے والی ان کی کتاب ’بلوچستان ان شیڈو آف افغانستان‘ بلوچ قوم پرستی اور بلوچ سرکشی کی تاریخ پر ایک بائیبل سجھی جاتی ہے۔ یہ سیلگ ہریسن تھے جو معروضیت پسند ہوتے ہوئے بھی امریکہ سمیت دنیا بھر میں بلوچ نقطۂ نظر کو آج تک پہنچاتے رہے ہیں۔ بلوچ قوم پرستی اور سرکشی پر ایک اور مقالہ جرمن زبان میں ہے۔ جو کسی بلوچ قوم پرست کی ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے۔

بلوچ سیاسی تاریخ کا انسانی المیہ یہ ہے کہ کئی عشروں سے ڈاکٹر سیلگ ہیرسین بھٹو، ٹکاخان کی فوج کشی کے دنوں میں چمالانگ میں مریوں اور فوج کے درمیاں ہونے والی خونریزی پر لکھ رہا تھا اور آج بھی اسی چمالانگ جیسے علاقوں میں آپریشن جاری ہے۔

ہرمز کے پانیوں سے لیکر تربت کے ساحل اور لیاری تک کردوں کی طرح بھٹکتے یا باسی بلوچوں کا دنیا بھر کے ایوانوں میں، جب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا بھی نہیں تھا، آواز پہنجآنے والا ایک بلوچ قوم پرست قادر بخش نظامانی تھا-

حیدرآباد سندھ کے قریب گاؤں قیصر نظامانی میں جنم لیا اور لندن میں جلاطنی کے دوران فوت ہو کر لیاری کے میوہ شاہ قبرستان میں دفن ہونے والے قادر بخش نظامانی جدید بلوچ قوم پرستی اور تہتر کی بلوچ سرکشی کے نظریے کے خالق بتائے جاتے ہیں۔

گزشتہ بدھ کو بلوچستان پر سماعت کے موقع پر امریکی کانگریس کی سماعت میں معروف امریکی دفاعی تجزیہ نگار رالف پیٹرس کہہ رہے تھے ’انسانی تاریخ میں آزادی کیلیے لڑی جانیوالی جنگوں میں امریکی المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان یورپی قوتوں کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کیلیے وہاں جانیں دینے خون بہانے کے لیے اپنی فوجیں بھجیں جو سرحدیں ان یورپی قوتوں نے متعین کی تھیں جن کے خلاف ہم نے آزادی لی تھی۔ پاکستان کا بھی معاملہ ایسا ہی ہے۔‘

بلوچستان پر سماعت کے دوران فقط پاکستانی بلوچستان پر نہیں بلکہ ایرانی بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ سینیٹر روباگر نے سیستان میں سیاسی نظم پر ملاؤں اور پاکستانی بلوچستان میں ملٹری کا غلبہ ہونے کی بھی بات کی۔

مجھے امریکہ میں پرانے بنگلہ دیشیوں کی باتیں یاد آئيں کہ وہ کس طرح انیس سو ستر کی دہائی میں امریکی ایوانوں کی حمایت حاصل کرنے کیلیے تگ و دو کیا کرتے تھے۔

بلوچ، ایک ایسی آبادی جس کے جوانوں اور بوڑھوں کو لاپتہ کر کے قتل کیا جارہا ہو اور اس کی اکثریت لفظ ’آزادی‘ روز مرہ کے معمولات میں بار بار استعمال کرتی ہو تو یہ سب کچھ خلاء میں چلائی جانیوالی بائی سائیکل نہیں بلکہ دیوار پر لکھی ہوئی صاف تحریر ہے۔


http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2012/02/120210_baloch_us_mujtaba_ar.shtml

No comments:

Post a Comment