Long live free and united Balochistan

Long live free and united Balochistan

Search This Blog

Translate

در طی چند روز گذشته آتش زدن کپرها و آلونک های مهاجرین بی پناه سیستانی در بیابان های دور و اطراف تهران و کرج و همچنین تخریب خانه های مهاجرین بی پناه سیستانی در حاشیه شهر زاهدان (که باعث اعتراض مولانا عبدالحمید هم شده است) در روزنامه ها و سایت های مختلف خبرساز شده است. قضات ظالم و بیمار و سگ های هار "حکومت مستضعفین" با قساوت ، بیرحمی و سنگدلی غیرقابل تصور آلونک های این بی پناهان را در سبزوار، و خراسان و یزد و تهران و زاهدان یا تخریب می کنند و یا به آتش می کشند. مولانا عبدالحمید در مورد تخریب منازل در زاهدان می پرسد: " اما بنده از دوستان منابع طبیعی، قاضی محترمی که حکم تخریب این منازل را صادر می‌ کند و سایر ارگان‌ها ذیربط می‌ پرسم وقتی منازل این افراد را در این فصل سرما تخریب کنیم، اینها کجا باید بروند؟ آیا آنهایی که از این نظام جنایتکار طرفداری می کنند، بویی از شرافت و انسانیت برده اند؟ یا آنها هم مثل سگ هار و بیمار و حریص بدنبال منافع شخصی خود و خانواده شان هستند.


یو بی اے نے فورسز پرحملے اور بجلی ٹاوراڑانے کی ذمہ داری قبول کر لی - See more at: http://dailysangar.com/home/page/3576.html#sthash.5TsCuAwq.dpuf


Nov 27, 2016, 8:39 pm
کوئٹہ ( سنگر نیوز)یونائٹیڈ بلوچ آرمی کے ترجمان مزار بلوچ نے کہا ہے کہ 26نومبر کو ہمارے سر مچاروں نے ضلع سبی اور ہرنائی کے درمیانی علاقے ببر کچ اور سبی تنگی کے درمیان فورسز کی چوکی پر حملہ کیا۔جسں میں فورسز کے چار اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ۔ یہ بات انہوں نے اتوار کو نامعلو م مقام سے سٹیلائٹ فون پراین این آئی کوبتائی۔ ترجمان نے مزید کہا کہ اسی علاقے میں بجلی کے ایک بڑے کمبے کو بھی دھماکے سے اڑا دیا جوکہ سبی تنگی ہرنائی شاہرگ ، لورالائی اور سنجاوی تک وسیع پیمانے پر بجلی فراہم کرتا تھا پہلا واقعہ دن کے 5 بجکر20منٹ پرکیا اور دوسرا واقعہ 7بجے کیا ہماری اس طرح کی کارروائیاں بلوچستان کی آزادی تک جاری رہیں گی ۔ 
 113  112  1  0
- See more at: http://dailysangar.com/home/page/3576.html#sthash.5TsCuAwq.dpuf

چه کسانی در ایران فقیر محسوب می‌شوند؟/ بیش از ۸۰ درصد مردم بلوچ زیر خط فقر کمپین فعالین بلوچ آبان ۲۹, ۱۳۹۵. به نظر می‌رسد اجماعی وجود داشته باشد که از میان بردن فقر به‌عنوان یک هدف مهم جامعه شناخته می‌شود. سیاستگذاران اقتصادی هم به تبعیت از این اجماع همواره به دنبال روش‌هایی برای جلوگیری از گسترش ف...
BALUCH.US

در این سمینار بجز از نمایندگان حزب مردم و گروه حقوق بشر بلوچستان و نماینده سازمان حقوق بشر اهواز خانم

۱ ساعت
کوردستان میدیا: روزنامه “القدس العربی” طی گزارشی اعلام کرد که حیدر عبادی. نخست وزیر عراق، از سخنان اخیر مسعود بارزانی ،رئیس اقلیم کوردستان، حمایت کرده و با ایده استقلال کوردستان نیز موافق است. بر اساس خبری از “باس نیوز”، روزنامه “القدس العربیه” طی گزارشی به سخنان حیدر عبادی در شهر کربلا پرداخته که گ...
BALUCH.US
پسند
نظر

Thailand’s government has deported and revoked the visas of two Baloch activists who were holding a conference in Thailand’s capital on Balochistan without allegedly getting permission from the authorities.

LONDON: Thailand’s government has deported and revoked the visas of two Baloch activists who were holding a conference in Thailand’s capital on Balochistan without allegedly getting permission from the authorities.
Munir Mengal and Bilal Baloch, who live in Paris and carry French passports, were deported on Sunday by the Thai authorities for allegedly holding a conference on Balochistan while being on the “tourist visa” and “without having permission from the government about the conference”.
The sources told The News that the conference titled “Balochistan Geo-politics and Baloch Identity” was set to be held at the Asian Institute of Technology Conference Center – AIT and Foreign Correspondents’ Club of Thailand from 28th to 30th November 2016 and several nationalist figures were sent invitations for the conference.
However, on Saturday night, the local police entered the hotel where the two activists were staying and told the organisers that they were violating the law by holding a conference of a sensitive nature without seeking permission.
At the time of filing of this report, both Munir Mengal, who runs the Baloch Voice Association, and Bilal Baloch were unavailable to comment because they were at the detention centre in Bangkok waiting to be deported to Paris but one of the main guests at the event and renowned activist Baseer Naveed told The News that the local authorities used “heavy-handed tactics to sabotage the conference”.
The invitations sent out to various participants said that the conference would discuss the “Construction of a new deep sea port at Gwadar”, “Pakistan’s relations with China” and “Pak-China Economic Corridor, Gwadar Deep Sea Port, Pasni Naval Base, TAPI and IPI pipelines”.
Many nationalist figures, based in Europe, told The News that they were invited to the conference but they declined the invitation because of the distance factor and the very questions about the nature and aim of the conference. Pictures showed police officers entering a small room and speaking to around five people sitting in the room.
Asian Human Rights Commission’s Baseer Naveed told The News that orders were received on Saturday evening by the authorities informing them that the conference could not be allowed. “We were gathered at a private event of a few individuals when it was disrupted. We told the police and immigration officers that no law was violated but the visas of Munir and Bilal were revoked.”
He said the immigration officers produced deportation orders and told the two activists to pack up and leave, telling the guests that the conference would not go ahead.He claimed that the Baloch activists were issued “conference visas” and not “tourist visas” but a Thai govt source said that the tourists could not be allowed to play with the local laws.Baseer Naveed alleged that the Thai government might have taken action to please “the Chinese and Pakistani governments”.

شرکت نماینده جنبش ملی بلوچستان – زرمبش در نهمین نشست اقلیت‌ها در سازمان ملل متحد

در روزهای 24 و 25 ماه نوامبر 2016 در سازمان ملل متحد – مقر ژنو نهمین نشست اقلیت ها برقرار شد. در این نشست نماینده زرمبش به همراه استقلال طلبان عرب احوازی و آذربایجانیهای ترک استقلال طلب شرکت نمود. زرمبش با شماری از سیاستگذاران بین المللی در مورد استقلال بلوچستان و خواست مردم بلوچستان برای یک کشور مستقل تبادل نظر کرد.
در این جلسه بین نمایندگان کشورهای چین و ایالات متحده امریکا اختلاف نظر شدید در مورد قوانین بین الملل در مورد ” حق حاکمیت” و مسئله “تمامیت ارضی” وجود داشت. چین بهمراه ایران، سوریه و روسیه مخالفت خود را با سخنان یک گروه اقلیت از مغولستان که خواهان حقوق کامل و تشکیل کشور مستقل بود، نشان دادند. اما نماینده امریکا در یک دفاعیه سریع از حق آزادی بیان و حقوقی که در روابط بین الملل مشروع هستند، حمایت کرد، و با دست زدن پر شور و صدای شرکت کنندگان در نشست مورد استقبال قرار گرفت.موضع امریکا مورد حمایت کشورهای بریتانیا و شماری از کشورهای اروپایی و نمایندگان اقلیتها با دست زدن مجدد و پر صدا  قرار گرفت.
جنبش ملی بلوچستان در تلاش است تا در جلسات آتی بتواند در نشست های سازمان ملل متحد در ژنو و یا در نیویورک سخنرانی داشته باشد.



زرمبش – 27 نوامبر

http://baluch.us/archives/3205

خصوصی حال / کوہساروں کی رسم نہیں خاموشی: کریمہ بلوچ


ذوالفقار علی زلفی
ذاتی ملکیت کے تقدس کے تصور پر قائم سماج میں عورت کی حیثیت کیا ہے؟؟ ذاتی ملکیت…..بورژوا مغربی معاشروں میں لبرل ازم کے پرفریب اور میک اپ زدہ نظریات کی آڑ میں عورت کی آزادی کے نعرے تلے نسوانیت بیچی اور خریدی جاتی ہے جب کہ مشرق کے جاگیرداری و قبائلی معاشروں میں غیرت اور عفت و عصمت کے کھوکھلے نظریات کے بل پر یہ کاروبار جاری ہے.
مشرق کا حصہ ہونے کے باعث بلوچ سماج بھی اس لعنت سے پاک نہیں. بلوچی کلاسیکل شاعری کی رو سے قدیم بلوچ سماج آج کی نسبت عورت دشمنی کے معاملے میں تھوڑا بہتر تھا.
ہانی، جہاں شے مرید کی گم گشتہ محبوبہ تھی وہاں وہ ایک مدبر، مشیر جنگ اور سیاسی رہنما کے روپ میں بھی نظر آتی ہے. سردار چاکر کی بہن "بانڑی" بھی ایک ایسا ہی نسوانی کردار ہے جسے آج بھی ایک اساطیری کردار سمجھا جاتا ہے. بلوچی کلاسیک شاعری سے مہناز و گراناز کا بھی پتہ ملتا ہے. مہناز جس نے مردانہ غرور کے قلعے پر نسوانی حملہ کر کے شہداد کی "مردانگی" کے بت کو پاش پاش کر دیا اور گراناز نے میدانِ جنگ سے پیٹھ دکھا کر بھاگنے کا قصہ سن کر اپنے شوہر لَلّھ کو ٹھکرا دیا.
کلاسیک دور گوکہ آئیڈیل نہ تھا، وہ ایک فیوڈل سماج تھا جس میں فیوڈل ازم کی تمام خامیاں اور سفاکیاں موجود تھیں مگر بہر کیف وہ نوری نصیر خان کی سلطنتِ شاہانہ سے بدرجہا بہتر تھا، جس نے عورت دشمنی کی پہلی اینٹ رکھی اور بعد ازاں اس پر پوری عمارت تعمیر کردی گئی.
بلوچ سماج میں عورت کی حیثیت عضوئے معطل کی سی ہے. وہ صرف و محض مرد کا سایہ ہے. سایہ بننے کا شرف بھی فیوڈل خاندان کی ملک زادی کو حاصل ہے نہ کہ عام بلوچ کو، عام عورت کا سایہ بھی جنسِ حرام ہے.
سرداروں نے اسمبلی میں عددی اکثریت قائم رکھنے کے لیے کبھی کسی پروین مگسی کو اسمبلی میں بھیجا تو کبھی کوئی فضیلہ عالیانی بن کر آئی. پاکستانی حکمرانوں کی ضرورت بن کر کبھی کسی "زبیدہ جلال" کا بھی نام چمکا. قوم پرست، جو خود کو ترقی پسندی اور سوشلزم کا داعی کہتے نہیں تھکتے، ان کی صفوں میں بھی عورت شجرِ ممنوعہ رہی.
بلوچ عورت کبھی "کاری" کا نام پا کر مرد کی مونچھوں کو تاؤ دینے کا سبب بنی کبھی کوئی سردار ان کو زندہ درگور کرنے کو بلوچ روایت منوانے پر مصر رہا. بلوچ سماج میں عورت کی عزت اور توقیر کی بیہودہ کہانیوں میں ہمیشہ یہ دکھایا جاتا ہے کہ عورت ؛ کم عقل، سازشی، حاسد اور عشق باز ہوتی ہے، سو حاصلِ کلام یہ کہ مرد اس کو "باندھ" کر رکھے.
بلوچ تحریک کے حالیہ ابھار نے جدلیاتی انداز میں سماج کی فرسودہ اقدار و روایات کو بھی دعوتِ مبارزت دی ہے. صدیوں سے قائم سماج کو سالوں میں بدلنا ممکن نہیں تاوقتیکہ معروضی حالات ایک انقلابی جست کی دہلیز پر نہ پہنچ جائیں اور بلاشبہ اس فیصلہ کن انقلابی جست سے ہم ہنوز دور ہیں. البتہ توڑ پھوڑ کا جو عمل شروع ہوچکا ہے، اس کے مثبت و منفی پہلوؤں سے قطع نظر وہ خوش آئند ہے. طرزِ کہن پر اڑنے والی قوتوں کا راج تاحال برقرار ہے اور آئینِ نو کے حامی ہنوز گم کردہ راہ، اس لیے سفر طویل ہے.
اس تحریک نے بلوچ عورت کے لیے بے پناہ مواقع پیدا کیے ہیں؛ بازیافت، خودشناسی اور اپنی نسوانیت کو منوانے کا راستہ فراہم کردیا ہے. دورِ حاضر کی گراناز و مہناز نے اس موقع کو استعمال کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا. یہی دیکھ کر امید کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا نہیں ہے.
عندلیب گچکی، شکر بی بی، فرزانہ مجید، کریمہ بلوچ سمیت متعدد خواتین نے……. عام اور گھریلو خواتین نے میدانِ عمل میں آ کر خود کو ثابت کیا اور منوایا. عندلیب گچکی آج بلوچی افسانہ نگاری کے میدان میں سرگرم ہیں، فرزانہ مجید نے کوئٹہ- اسلام آباد براستہ کراچی لانگ مارچ کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی.
کریمہ بلوچ، بلوچ سیاست کی اولین خاتون رہنما، ایک روایت شکن اور نئے عہد کی بازگشت بن کر سامنے آئیں.
خلیج کا بازار دبئی، ایک شہرِ مزدور کش، کریمہ بلوچ کی جائے پیدائش ہے، جہاں وہ 1986 کو پیدا ہوئیں. یہ وہ دور تھا جب بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں ضیاالحق کا اسلام نافذ تھا، عورت کی بے توقیری کو آئین کا حصہ بنا کر ملاؤں کے ذریعے سماج کی رگ رگ میں پھیلایا جا رہا تھا. آدھی گواہی، وراثت سے محرومی، نامحرم و محرم کا ٹنٹنا، حدود آرڈیننس کے قصے…..ضیاالحق نام کی یہ بیماری آج تک پاکستان کو لاحق ہے.
وہ پیدا تو دبئی میں ہوئیں مگر شاید وطن کی مٹی کی کشش کا مقابلہ نہ کرسکیں، اس لیے جب ہوش سنبھالا تو خود کو بلوچستان میں پایا. تمپ، پنّوں کے کیچ مکران کا حصہ، ان کا آبائی گھر ہے. بے آب و گیاہ پتھریلی سرزمین اور سنگلاخ چٹانوں میں گھری یہ چھوٹی سی بستی، جہاں بقول ہمارے لافانی شاعر عطا شاد کے، "رات سو جائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے" کریمہ بلوچ کے لیے پوری کائنات بن گئی. یہ کائنات کنویں کے مینڈک جیسی کائنات نہ تھی، یہاں فدا بلوچ جیسے سوشلسٹ طالب علم لیڈر کا اثر تھا، یہ ضیاالحق کے دربار میں جرمِ بغاوت پر پھانسی کا پھندہ چومنے والے حمید بلوچ کے نظریاتی جانشینوں کا مسکن تھا. غلام محمد بلوچ جنہیں بلوچ قوم کا غریب ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے، وہ بھی تمپ کے ہی ہمسائے تھے. سو، کریمہ نے انقلاب و نظریات کی گود میں پرورش پائی.
ان کا گھر، جہاں ایک دادی کہانیاں سناتی تھی؛ جدوجہد کی کہانیاں، ظلم و تشدد مخالف کہانیاں، وہ گھر جہاں صبح و شام سیاست اور سیاسی نظریات پر بحث ہوتی تھی، ننھی سی کریمہ کی سمجھ میں وہ بحثیں تو نہ آتیں مگر دادی کی داستانوں کو ملا کر وہ سمجھ چکی تھیں کہ وہ شب گزیدہ سحر کا نوحہ ہیں اور انقلاب اس سحر کا راستہ جس کا حمید و فدا نے خواب دیکھا: ایک آزاد اور جمہوری وطن کا خواب.
اسکول کی زندگی میں ہی انہوں نے اپنا راستہ چن لیا؛ کانٹوں بھرا راستہ. وہ راستہ جو دادی کی کہانیوں میں شہزادی ظالم بادشاہ کے خلاف اختیار کرتی تھی. یہ ایک لاشعوری فیصلہ تھا، معروض سے متاثر فیصلہ. مگر وقت نے جب شعور کے دروازے پر دستک دی تو انہوں نے شعور کو ذاتی خوش حالی و ذاتی مفاد پر قربان کرنے کی بجائے اسلاف کا راستہ ہی منتخب کیا.
یہ واقعہ ہوا 2006 کو.
12 اکتوبر 1999، پاکستان میں جمہوریت نام کے ڈرامے میں انٹرول کا اعلان ہوا. خاکی وردی کے نمائندے پرویز مشرف تبدیلی کا اشتہار بن کر سامنے آئے. مشرق کی خودساختہ بیٹی اور آج کی "شہیدِ جمہوریت" بینظیر بھٹو نے انگریزی زدہ اردو میں اس انٹرول کا خیرمقدم کیا. لندن نشین "نقیبِ انقلاب" الطاف حسین نے بغلیں بجائیں. تبدیلی کے پرستار عمران خان اور دیگر نے دیدہ و دل فرش راہ کیے. مگر کاہان کا بوڑھا فلسفی بلوچ سردار اور سنگسیلہ کا انا پرست بگٹی سردار اپنی اپنی جگہوں پر کچھ مختلف سوچ رہے تھے.
یہ سوچ عمل بن کر 2004 کو سامنے آئی اور پوری شدت کے ساتھ سامنے آئی….بہت کچھ بدل گیا، بہت کچھ بدل رہا ہے اور بہت کچھ بدلنا باقی ہے….کراچی، لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ جیسے طاقت کے مراکز سے کوسوں دور تمپ کی کریمہ بھی بدل گئی.
وہ اب اسکول کی بچی نہیں رہی. نوجوان طالبہ تھی؛ سوچنے والی طالبہ. جب وطن کی فضاؤں میں اس انقلاب کے بادل گرجے جس کے سپنے انہوں نے بچپن میں دیکھے تھے تو انہوں نے ان بادلوں کے دوش پر سفر کرنے کے لیے رختِ سفر باندھا. انہوں نے طلبا تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کر لی.
لڑکی اور سیاست !…….پانی، بجلی، ہسپتال، سڑک سمیت انسان ہونے کے ہر حق سے محروم دیہاتی بلوچ کی سمجھ میں کریمہ کا یہ فیصلہ بالکل نہ آیا. سمجھنا تو دور اس سے ہضم تک نہ ہوا. مذہبی تاویلات گھڑی گئیں، ملاؤں کی تان میں تان ملا کر ایک کورس شروع ہوگیا. مگر بے سود….ترکش کے تیر ختم کہاں ہوئے تھے. بلوچ اقدار و روایات کی زنجیریں تیار کی گئیں؛ غیرت، عزت، آبرو، نسوانیت کے مضامین باندھے گئے. توبہ توبہ کا وردان لیاری جا پہنچا.
اہلِ خانہ نے ہمت بندھائی، بہن بھائیوں نے رکاوٹ نہ بننے کی یقین دہانی کرائی، سو تھوڑی راحت ملی.
مکران کا قبائلی و ذات پات میں بٹا سماج، ملائیت زدہ سماج، کافی تلملایا. رہی سہی کسر ارب پتی متوسط طبقے نے پوری کردی یعنی ایک نہتی عورت سے پورا معاشرہ خائف تھا.
انہوں نے نہ صرف اندرونی لڑائی جاری رکھی بلکہ اسلام آباد و پنڈی میں بیٹھے فرعون صفت حکمرانوں کو بھی چیلنج کردیا. بلوچ سیاست میں کریمہ بلوچ کا ظہور ایک خوش گوار اضافہ ثابت ہوا مگر چوں کہ پاکستانی معاشرہ غلاظت اور بدبودار قے میں پلتا ہوا ایک گلا سڑا سماج ہے اس لیے کریمہ بلوچ کو روکنے میں کامیابی نہ پا کر ان کی نسوانیت کو نشانہ بنانے کی قابلِ نفرت کوشش کی گئی. افسوس، اس میں دوست و دشمن سب شامل رہے.
ایک بلوچ اخبار کی خاتون ایڈیٹر نے کریمہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی آنکھوں پر "سیاسی" قصیدہ لکھا، گویا کریمہ کی سوچ اور ان کا نظریہ نقاب سے جھانکتی آنکھوں کے سوا کچھ نہیں. پھر تو تانتا بندھ گیا. ایک اور دانش ور نے ان کو شربتی آنکھوں کا خطاب دیا. آنکھیں سمبل بن گئیں…..ان آنکھوں میں چھپے دکھ، تازیانے، حکمرانوں کے خلاف نفرت، شرارے ، صرف افتادگانِ خاک ہی دیکھ پائے . اسی لیے تو افتادگانِ خاک ان کے نام سے پہلے "بانک" ، "گودی" یا "گھار" کا لاحقہ ضرور لگاتے….بلکہ ایک بزرگ بلوچ شاعر تو ان کو "امّا" کہہ کر یاد کرتے ہیں.
جس دوران وہ پاکستانی میڈیا کے سامنے بلوچ مقدمہ لڑ رہی تھیں، اسی دوران ان کی بے توقیری کے قصے گردش کرنے لگے.
انہوں نے ان تمام فضولیات کا ڈٹ کر سامنا کیا بلکہ شاید وہ سرخرو ہوکر نکلیں….ان کے بقول :

"جس سماج سے میرا تعلق ہے وہ ایک پسماندہ اور سیاسی شعور سے عاری معاشرہ ہے اور سماج کی رہنمائی اور تربیت کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی ہے، چوں کہ میرا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے اس لیے میرا گلہ کرنا فضول ہوگا کیوں کہ پھر یہ شکایت تو مجھے خود سے کرنا ہوگی، آخر سماج کو بدلنا میری بھی تو ذمہ داری ہے".

وہ سمجھتی ہیں کہ معاشرے میں موجود تاریکی کی قوتوں سے لڑنا میرا مقصد ہے. ان کی موجودگی پر رونا دھونا کوئی معنی نہیں رکھتا.
اس نظریے کے تحت وہ تاحال سیاست میں سرگرم ہیں. وہ بلوچ عورت کی غلامی اور اس کی پسماندگی کو قبائلی نظام اور پاکستانی نوآبادیاتی سسٹم سے جوڑتی ہیں. ان کے مطابق موجودہ قبائلی نظام انگریز کے نوآبادیاتی عہد کے سانچے سے ڈھل کر نکلا ہے اس لیے اس نظام کی شکست و ریخت لازمی ہے اور دوسری جانب چوں کہ اس نظام کو آکسیجن پاکستان مہیا کر رہا ہے سو من حیث القوم اس سے نجات بھی لازمی ہے….گویا وہ دو محاذوں پر لڑ رہی ہیں؛ سردار اور سرکار دونوں کے خلاف.
پاکستان میں کسی عورت کا سیاست میں حصہ لینا یوں بھی طوفان کو دعوت دینے کے مترادف ہے. اگر عورت بلوچ ہو تو یہ طوفان محض طوفان نہیں بلکہ سونامی بن جاتا ہے. کریمہ بلوچ کا سامنا بھی سونامی سے ہے: مسخ لاشوں، جلتے گھروں، مسمار مکانوں، جنسی غلام بنائی گئیں عورتوں کی نمائندہ بن کر ریاستی قوت سے ٹھکرانا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے. اس راستے پر انہوں نے سیکڑوں رفیقوں کے مسکراتے چہروں کو مسخ ہوتے دیکھا، کچھ کو ہمیشہ کے لیے لاپتہ افراد میں پایا، ان گنت خواتین کو بے توقیری کے مراحل سے گزرتا دیکھا، درجنوں سیاسی دوستوں کی طوطا چشمی کو ملاحظہ کیا. خود بھی "بہادر" فورسز کے ڈنڈوں کا سامنا کیا. حوصلہ نہ ٹوٹا تو ایف آئی آر درج کی گئی. ظلمت کدے میں یہ اعلان بھی سنا گیا اب کریمہ بلوچ کو گرفتار کر کے واحد کمبر کے سامنے بے لباس نچایا جائے گا. پاکستانی ریاست کے ایوانوں سے تہذیب کی امید کوئی بدتہذیب ہی رکھے.
شاید یہ ان پر سب سے زیادہ بھاری لمحہ تھا…..پر شاید….
کیوں کہ وہ کہتی ہیں :
"غلامی کی زندگی سے زیادہ بھاری بھلا کیا ہوسکتا ہے، متعدد سیاسی دوست، کامریڈ چھین لیے گئے، جنگ و جدل میں سانس لیتا وجود، بھاری لمحہ تو ہر لمحہ ہے،, ہر آنے والا لمحہ گزرتے لمحے سے زیادہ بھاری ہے."
اس ایف آئی آر نے تاہم ان کو محتاط بنادیا. جوش پر ہوش نے پہرے ڈال دیے. تعلیمی زندگی درہم برہم ہوگئی، جس کا دکھ غالباً انہیں عمر بھر رہے گا.
جہاں جوش پر ہوش غالب آیا وہاں گرفتاری کا خطرہ بھی آسیب بن کر چمٹ گیا. وہ جانتی تھیں کہ خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کا مطلب کیا ہے. وہ گرفتاری کے نتائج و عواقب سے مکمل آگاہ تھیں. امریکی پولیس نے ایما گولڈ مان کو بارہا گرفتار کیا اور یقیناً جیل میں ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک بھی کیا گیا مگر یہاں کے خفیہ ادارے امریکی پولیس سے زیادہ گرے ہوئے اور ان کے عقوبت خانے امریکی جیلوں سے زیادہ خوف ناک ہیں. اس بھیانک حقیقت کا انہیں بخوبی علم تھا. اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی.
عوام سمیت ان کے نظریاتی ساتھیوں پر اس وقت حیرت کے پہاڑ ٹوٹے جب کریمہ بلوچ نے بی ایس او کے چیئرمین زاہد بلوچ کی اغوا نما گرفتاری کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں سر اٹھا کر اس درندگی کی تفصیلات بیان کیں.
"انقلابی سرداروں" کے بے روح ڈھنڈورچیوں نے دانش وری کا لبادہ اوڑھ کر ان کو پاگل، بے وقوف اور ناپختہ لڑکی کے القابات سے نوازا، مگر، انقلاب تو دیوانوں کا ہی کھیل ہے، کون سمجھائے !!!!!….
ناپختہ اور پاگل لڑکی سے ڈرتے ہو…..سردار، سرکار آپ بھی کمال کرتے ہو!!
بی ایس او کے گذشتہ کونسل سیشن میں وہ تنظیم کی چیئر پرسن کے عہدے کے لیے منتخب کی گئیں. معلوم بلوچ تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ ایک خاتون جہدِ مسلسل اور محنت کے بعد ایک تنظیم کی سربراہ منتخب ہوئیں. یہ نہ صرف کریمہ بلوچ بلکہ بلوچ قوم کے لیے بھی کسی اعزاز اور فخر سے کم نہیں اور آزادی نسواں کے میک اپ زدہ عَلم برداروں کے منہ پر طمانچہ جو عورت کی آزادی کو سماج کی آزادی سے الگ تصور کرتے ہیں، جو عورت کے خلاف، عورت کی زبان میں سازش کرتے ہیں.
کریمہ بلوچ کی سربراہی ہر چند کوئی بڑی کامیابی نہیں، ابھی جنگ جاری ہے. مگر طاغوتی طاقتوں کے خلاف خاک نشینوں کی یہ ایک اہم کامیابی ہے، ایک امید کا ستارہ..
بلوچستان کی بگڑتی صورت حال اور کےسخت حالات کے باعث چند ماہ پیشتر کریمہ بلوچ نے جلاوطنی اختیار کرنے کا فیصلہ کر کے کینیڈا کو مستقر بنایا. یہ ایک درست فیصلہ ہے کیوں کہ بقول کامریڈ بھگت سنگھ :
"انقلاب کو شہیدوں کی نہیں سخت اور پُر مصائب حالات میں جدوجہد کرنے والوں کی ضرورت ہے، سو زندہ رہو اور کام کرو……"
طالب علم لیڈر ہونے کے باعث ان پر قومی سیاست سے متعلقہ معاملات پر رائے طلب کرنا یا کسی پالیسی کی امید رکھنا شاید زیادتی ہو مگر چوں کہ بی ایس او کی حیثیت بلوچ سیاست میں ہراول دستے کی سی ہے اور عوام نے ہمیشہ بی ایس او کو ٹوٹتے، بکھرتے، بکتے اور جھکتے دیکھا ہے، اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو مان لینا چاہیے کہ وہ بشیر زیب یا ڈاکٹر امداد کی طرح سر جھٹک کر گم نام زندگی سے لطف اندوز ہونے کا حق نہیں رکھتیں.
وہ جس مقام پر کھڑی ہیں وہ مقام ان کی محنت کا ماحصل ہے، اپنی محنت کو لٹتا دیکھنا شاید انہیں بھی گوارا نہ ہو، اس لیے انہیں اب زیادہ میچور اور زیادہ پختہ سیاست کی جانب آنا ہوگا.
سو ایک تمنا ہے کہ، کینیڈا کی سرد اور پُرسکون فضاؤں میں چند لمحے وہ ماضی کی غلطیوں اور مستقبل کے امکانات پر ضرور صرف کریں.

در این فیلم کوتاه خواهیم دید که رژیم آخوندی با نیروهای زابلی که در نقش مخبرین بلوچ در مرزهای بلوچستان چگونه نقششون را بازی میکنند این زابلی در این فیلم کوتاه میگه که همه دوستان زابلیش به زبان بلوچی مسلط اند.

**********************





*******************************

تربت: پاکستانی فوج جانب ،بلوچ خواتین کو آزادی کی جہد کے خلاف استعمال کرنے عمل کا آغاز - See more at: http://dailysangar.com/home/page/2607.html#sthash.wGgVsfGc.3vDdFhfP.dpuf

Sep 5, 2016, 9:03 am

تربت (سنگر نیوز) پاکستانی آئین کے پاسدار سیاست دانوں اور خفیہ اداروں کا بلوچ خواتین کو قومی جہد آزادی کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ،یہاں آمدہ اطلاعات کے مطابق مقبوضہ بلوچستان کے علاقے تربت میں خواتین کو پولیس میں بھرتی کر کے خفیہ ٹرینگ کے لیے کوئٹہ بیجھا جا رہا ہے تاکہ انکو واپس کیچ میں منتقل کرکے انھیں بلوچ قومی جہد آزادی کے خلاف مخبری و دیگر اعلیٰ کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔تربت کے علاقوں شہرک ،شاپک، سامی سے ۷ ماہ قبل بھرتی کیے جانے والے23 خواتین کوئٹہ پاکستانی آرمی کے خفیہ ٹرینگ مکمل کر کے واپس تربت پہنچ گئے اور23 خواتین کو گزشتہ روز پاسنگ آوٹ کے بعد باقاعدہ اہم ذمہ داریاں دے دی گئی ہیں،مقامی انتظامیہ کے اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی صورت میں بتایا کہ اس وقت ایک سو پچاس خواتین بھرتی کیے جا چکے ہیں یہ سلسلہ ڈاکٹر مالک کی حکومت میں شروع کیا گیا ،جسکا واضح مقصد بلوچ خواتین کو اہم اور ملٹری انٹیلی جنس ٹرینگ دے کر بلوچ قومی جہد کے خلاف اعلیٰ کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ذرائع کے مطابق اس ماہ مزید تیس سے زائد خواتین ٹرینگ مکمل کر کے تربت پہنچ جائیں گے۔ایک بزرگ بلوچ قوم پرست نے ادارہ کو بتایا کہ اس بارے مزاحمتی تنظیموں کو کوئی پالیسی اختیار کر نا چائیے اس لیے کہ بلوچ معاشرے میں خواتین کی اہمیت اعلیٰ اور قابل احترام ہے اب پاکستانی فوج کے اعلیٰ کار کے طور پر نیشنل پارٹی کا اپنی خواتین کو استعمال کرنا انتہائی شرمناک عمل ہے،بزرگ بلوچ نے کہا کہ اگر ہماری قوم آزاد ہوتی اور وطن کے مالک ہم ہوتے ہو اس میں کوئی برائی نہیں اس لیے کہ بلوچ معاشرہ سیکولر اور برابری کی مظبوط مثال ہے،مگر یہاں مسلہ پاکستانی مفادات کا ہے۔ اس بارے عوام کو ہوشیار رہنے کے ساتھ آزادی پسند سیاسی تنظیموں کو ریاستی ان چالوں سے ہوشیار رہنے کے لیے عوام کو آگاہی دینا
- See more at: http://dailysangar.com/home/page/2607.html#sthash.wGgVsfGc.3vDdFhfP.dpuf

«حاشیه‌نشینان چابهار بدترین وضع زندگی در ایران را دارند»



معاون توسعه روستایی و مناطق محروم نهاد ریاست جمهوری پس از بازدید از مناطق حاشیه‌نشینی چابهار گفت در هیچ 
نقطه‌ای از ایران چنین وضع بد زندگی را ندیده است.
به‌گزارش کمپین فعالین بلوچ به نقل از ایرنا، ابوالفضل رضوی گفت: «حاشیه‌نشیان چابهار بدون امکانات رفاهی روزگار سختی را می‌گذرانند به‌طوری که مشاهده وضع اسفبار هزاران نفر ساکن این منطقه بدترین شکل زندگی روستایی را در ذهن تداعی می‌کند.»
او که پس از بازدید از مناطق حاشیه‌نشینی چابهار در جمع رؤسای شوراهای استان‌ها و شهرهای کشور سخن می‌گفت، افزود: «با وجود سفرهای متعدد به نقاط مختلف کشور هنوز در هیچ نقطه‌ای وضع بد زندگی خانوارها را به‌مانند مناطق حاشیه‌نشین چابهار مشاهده نکرده‌ام.»
چابهار با بیش از ۵۰‌ هزار نفر حاشیه‌نشین یکی از مناطقی است که در مقایسه با جمعیت خود بیش‌ترین شمار حاشیه‌نشینی در کشور را دارد و حتی جمعیت سکونتگاه‌های غیررسمی آن از جمعیت حاشیه‌نشینی مراکز برخی استان‌ها بیش‌تر است.
رضوی گفت: «از چند نوجوان حاشیه‌نشین چابهار سئوال کردم که در آینده می‌خواهید چه کاره شوید؛ متأسفانه به دلیل مشکلات فراوان، هیچ آرزویی نداشتند.»
در این نشست، احمدعلی موهبتی، فرماندار چابهار نیز سخن گفت. او ۶۳ درصد جمعیت شهری چابهار را حاشیه‌نشین خواند و گفت «[آن‌ها] بدترین وضع زندگی را بدون برق، فضای آموزشی و آب دارند».
موهبتی افزود: «چابهار بدترین وضع بهداشتی را در سال‌های گذشته داشته است؛ به‌طوری که بیشترین مرگ مادران باردار از چابهار بوده است.»
به‌گفته فرماندار چابهار، آموزش و پرورش این شهر از نظر نیروی انسانی با مشکلات جدی و کمبود حدود ۹۰۰ معلم مواجه است و هر معلم در کلاس به‌طور متوسط آموزش و تربیت ۳۸ دانش‌آموز را برعهده دارد و کلاس‌های درس در زمینه امکانات سرمایشی و گرمایشی، میز و نیمکت با مشکلات جدی مواجه هستند.
در زمینه شاخص‌های فضای آموزشی نیز بدترین وضع در چابهار دیده می‌شود که این فضا به‌ازای هر دانش‌آموز ۴۸ سانتی‌متر مربع است.
مشکل آب نیز یکی از مشکلات اساسی سیستان و بلوچستان و به‌ویژه چابهار است. فرماندار چابهار می‌گوید: «با وجود همجواری با آب‌های اقیانوسی، روزانه ۱۵ لیتر آب با تانکرهای آبرسانی سیار در مناطق روستایی برای هر نفر توزیع می‌شود که این امر خیلی دردناک و غیرقابل باور است.»
نزدیک به ۹۵ درصد روستاهای استان سیستان و بلوچستان فاقد آب آشامیدنی سالم هستند.
چابهار ۲۶۰ هزار نفر جمعیت دارد و در فاصله ۶۴۵ کیلومتری جنوب زاهدان، مرکز استان سیستان و بلوچستان قرار دارد.

مخبری و رد کردن گزارشات کذب برای وزارت اطلاعات یا سپاه برای پست و مقام یا برای کالای ناچیز دنیوی و جوانان بلوچ را روانه شکنجه گاههای رژیم کردن عمل ناشایست وبدور از عقیده ودین،قوم ،ملت است و کسی این چنین اعمال ننگینی انجام نمیدهد جز کسی که در وجود آن شخص ایمان و غیرت مسلمانی وبلوچی مرده باشد. بلهم دیگر برنامه را خواهیم دید انشاءالله


تخریب برخی از منازل مردم اهلسنت بلوچ - حاکمیت بدنبال تغییر بافت جمعیتی و مذهبی این شهرهای بلوچستان است.



به گزارش عدالت نیوز بنقل از سنی آنلاین، مولانا عبدالحمید امام جمعه زاهدان امروز 5 آذر در بخشی از خطبه های نماز جمعه با اشاره به تخریب برخی از منازل مردم اهلسنت بلوچ در این شهر گفته اند: "روز گذشته چند نفر از مردم حومه‌ی زاهدان نزد بنده آمدند و گفتند منازل ما را در همین روزهای سرد تخریب کرده‌اند."
ایشان در ادامه با طرح پرسش از مسولان ذی ربط پرسیده اند: "وقتی منازل این افراد را در این فصل سرما تخریب کنیم، اینها کجا باید بروند؟" 
رئیس شورای هماهنگی مدارس اهلسنت ایران در ادامه تاکید کرده اند "زمین جزو منابع طبیعی و ملی و متعلق به ملت است و افرادی که منازل‌شان در فصل سرما تخریب می‌شوند هم جزو همین ملت و یا حداقل انسان هستند، لذا نباید منازل آنها در این روزهای سرد تخریب شود." 
تخریب منازل مردم اهلسنت بلوچ در مناطق مختلف بلوچستان مخصوصا در شهرهای مهم چابهار و زاهدان با شدت تمام ادامه دارد. بصورتی که آقای ایوب کرد معاون اداره کل راه و شهرسازی جنوب استان اذعان کرده بود "در شش ماه نخست سال جاری بیش از 150 هکتار از اراضی شهر چابهار رفع تصرف شده است" علاوه بر این در دی ماه سال گذشته (1394) نیز یک روستا در اطراف شهر زاهدان به نام "شهیدان دانش پایه" با وجود آنکه منازل مسکونی آن دارای کد و پلاک بودند تخریب شده بود. 
علت عمده این تخریبها که از سوی دولت اعلام میشود اطلاق این زمینها به منابع طبیعی است!! تکرار این دلیل برای تخریب منازل و تصاحب زمینهای مردم بلوچ آنچنان رواج یافته که مردم بلوچ آن را بهانه ای برای تخریب منازل خود میدانند. 
بسیاری از کنشگران بلوچ معتقد هستند حاکمیت در اطراف شهرهای حیاتی بلوچستان (مخصوصا چابهار و زاهدان) به عمد خانه های مردم بلوچ را تخریب میکند و پس آن زمینهای خالی این خانه ها را با وامهای بلند مدت به افراد خودی نظام و غیر بومیان واگذار میکند.

این دسته از کنشگران معتقد هستند که حاکمیت بدنبال تغییر بافت جمعیتی و مذهبی این شهرهای بلوچستان است.
حاکمیت بدنبال تغییر بافت جمعیتی و مذهبی این شهرهای بلوچستان است.

شرایط اسفناک برای انجام یک سونوگرافی در سراوان / از ادعا تا واقعیت

شرایط اسفناک برای انجام یک سونوگرافی در سراوان / از ادعا تا واقعیت
وضعیت درمانی بلوچستان هم ردیف با مشکلات بخش آموزشی از خبر سازترین محرومیت های مردم این استان در چند مدت اخیر بوده است.
به علت حجم و همچنین انتشار یکنواخت این نارسایی ها در تمام مناطق بلوچستان، بصورت دقیق نمیتوان تفکیکی از وضعیت شهرهای بلوچستان از نظر میزان شدت این محرومیت در آن مناطق سخن گفت. اما در نگاه کلی بجز از زاهدان مرکز استان و نواحی شمالی استان که غیر بومیان و افراد پیرو مذهب حاکمیت بصورت چشمگیری حضور دارند این شرایط متفات است و بصورت کلی با توجه به وضعیت عمومی کشور میتوان شرایط زاهدان و مناطق شمالی استان را بنوعی عادی عنوان کرد.
اما وضعیت در قسمتهای مرکزی و جنوبی بلوچستان به کلی متفاوت است. بصورتی که آقای ایرج ضاربان رئیس دانشگاه علوم پزشکی ایرانشهر در 16 مهرماه سال جاری در جلسه بین مسولان درمانی استان با سازمانهای مردم نهاد عنوان کرده بود "هنوز ۶ شهر ما بیمارستان ندارد".
علاه بر این در برخی از شهرستانهای جنوبی بلوچستان که بیمارستان وجود دارد به علت وسعت مناطق تحت پوشش و همچنین حجم مراجعین در کنار ضعف یا نبود نیروهای متخصص و متعهد، عملا این شهرستانها نیز تا مرز نبود بیمارستان به پیش رفته اند. در این زمینه وضعیت شهرستان سراوان قابل توجه است. که درباره آن آقای ضاربان در همان جلسه نسبت به محرومیتهای درمانی این شهرستان هشدار میدهد و با تاکید بر نبود فضای درمانی کافی میگوید "بیمارستان سراوان هم مرز با پاکستان که در سال ۱۳۵۰ با ظرفیت ۲۵ تخت به بهره برداری رسیده است، حالا در همان فضای فیزیکی ۱۳۶ مریض را بستری می کنیم. بعضا مجبور می شویم بیماران را در راهروهای بیمارستان بخوابانیم"
وضعیت ضعف بیمارستانها از نظر کمی در بلوچستان بگونه ای است که آقای عبدالباسط درازیی نماینده مردم سراوان در مجلس گفته بود که مردم حوزه انتخابیه وی که در نزدیکی مرز زندگی میکنند به دلیل نبود امکانات برای معالجه به کشور پاکستان سفر میکنند.
در کنار محرومیتهای کمی در قسمت تجهیزات و فضای درمانی، وضعیت کمبودهای در نبود پزشک متخصص نیز به همین میزان محسوس است. بصورتی که آقای ضاربان گفته اند در قسمتهایی از حوزه تحت پوشش دانشگاه علوم پزشکی ایرانشهر مردم مجبور هستند برای رسیدن به یک پزشک متخصص 420 کیلومتر مسیر را طی کنند.
در همین زمینه تصاویری که دیروز 4 آذر ماه به خبرگزاری عدالت نیوز رسیده است میتوان به عمق محرومیتهای درمانی در این بخش از بلوچستان پی برد. در این ویدیو که یک گزارشگر آزاد آن را تهیه کرده است تعدادی مرد و زن نمایش داده میشوند که در نیمه های یک شب سرد پائیزی در شهر سراوان در مقابل یک کلنیک درمانی برای گرفتن نوبت جهت انجام سونوگرافی به انتظار نشسته اند. قابل توضیح است نوبت دهی این کلنیک از ساعت شش صبح شروع میشود اما این افراد که بعضی از آنها از شهرستان سرباز (روستای کافه بلوچی) برای معالجه آمده اند ادعا میکنند که پنج روز است که بصورت پیوسته برای انجام سونوگرافی مراجعه میکنند اما تاکنون موفق نشده اند که بلیط انجام این معالجه را تهیه کنند.
گزارش این محرومیتها در حالی است که دولت یازدهم ادعا میکند توجه ویژه ای نسبت به بلوچستان دارد اما گویا صرفا این توجه محدود به سخنان کلیشه ای مسولان و سفرهای گاه و بیگاه مسولین کشوری به بلوچستان محدود شده است و در عمل هیچ تاثیر قابل لمسی برای حل محرومیتها و محدودیتهای بلوچستان در پی نداشته است.
#بلوچ_وبلوچستان_مظلوم
-2:41